Saturday, June 1, 2024

FASANA-E-AJAIB ( Rajab Ali Beg Suroor )

 

مرزا رجب علی بیگ سرور کی کتاب "فسانہ عجائب" مختصر داستانوں کے سلسلے کی مشہور کتاب ہے،اس داستان کو دبستان لکھنو کی نمائندہ تصنیف کی حیثیت سے دیکھا گیا ہے ،فسانہ عجائب انیسوی صدی کی ان کتابوں میں سے ہے ، جنھوں نے اپنے زمانے کے ادب کو غیر معمولی طور پر متاثر کیا ہے ،اس کتاب میں اپنے عہد کی روح ہے ، اس داستان کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا مزاج ہندوستانی ہے، اس کتاب کے دیباچے میں سرور نے میرامن اور دہلی دونوں کے متعلق جو کچھ لکھا تھا، اس نے باضابطہ اعلان جنگ کا کام کیاتھا، جب باغ و بہار کے آسان اور عام فہم اسلوب پر اس زمانے میں اعتراضات کیے جانے لگے تو انہوں نے اس کے مقابلے میں "فسانہ عجائب" کی صورت میں مشکل اور گراں عبارت لکھ کر "باغ و بہار" کی ضد پیش کی۔ اور اس زمانے میں خوب داد حاصل کی۔ بقول شمس الدین احمد، "فسانہ عجائب لکھنؤ میں گھر گھر پڑھا جاتا تھا۔ اور عورتیں بچوں کو کہانی کے طور پر سنایا کرتی تھیں اور بار بار پڑھنے سے اس کے جملے اور فقرے زبانوں پر چڑھ جاتے تھے۔" یہ ایک ادبی شاہکار اور قدیم طرز انشاء کا بہترین نمونہ ہے۔ اس کی عبارت مقفٰفی اور مسجع، طرز بیان رنگین اور دلکش ہے۔ ادبی مرصع کاری، فنی آرائش اور علمی گہرائی کو خوب جگہ دی گئی ہے۔ اس نسخے کو سید محمود رضوی اور مخمور اکبرآبادی نے مرتب کیا ہے۔

Kulliyat-e-Meer ( Meer Taqi Meer )


 خدائے سخن ،شہنشاہ تغزل میرکی شاعری درد وغم ،رنج و الم ،آنسو کی ترجمان ہے۔میر نے اپنے ذاتی غم کو آفاقی غم بنا کر پیش کیا ہے۔میر کی یہ شاعری جو درد وغم اور رنج و الم کی ترجمانی اور عکاسی کے باعث سوز و گداز اور نشتریت سے بھرپور اداس ضرور کرتی ہے لیکن اس میں گھٹن کا احساس نہیں ہوتا۔یہ ان کے دل اور دلی کی شاعری ہے جسے باربار اجاڑا اوربسایا گیا۔ان کے غم کی آفاقیت نے انھیں شہرت دوام بخشی ہے۔جس کی اہمیت ہردور میں مسلم ہے۔ زیر نظر کلیات میر جدید اصول و ضوابط کے مطابق ترتیب دیا گیا ہے۔ یہ کلیات تقریبا گیارہ سو صفحات پر مشتمل ہے۔ جس میں میر کا تمام کلام موجود ہے۔ کلیات کے شروع میں عبد الباری آسی کا ایک طویل مقدمہ موجود ہے۔ اس کے بعد میر کے چھ دیوان ترتیب وار ہیں۔ پھر ان کی دیگر اصناف، فردیات وغیرہ کو شامل کیا گیا ہے۔