ناصر کاظمی کا شمار نہ تو قدیم شاعر وں میں ہوتا ہے اور نہ ہی جدید رنگ کے شاعر وں میں، کیونکہ انہوں نے ترقی پسند تحریک کے عروج کے زمانہ میں اپنے شعر کے فکر ی پیمانے کو رومانوی رکھا ساتھ ہی غزلوں میں عصرِ حاضر کے مسائل سے کبھی نظر نہیں چرائی۔ الغرض ایسی غزلیں کہیں جن کارنگ کلاسیکی شعرا سے لیا گیا تھا ۔ ’’برگ نے ‘‘ 1954 میں شائع ہونے والا ان کا پہلا مجموعہ کلام ہے۔ اس مجموعہ میں بڑی شاندار غزلیں ہیں۔ فنی طور پر ناصر کاظمی کی غزلوں میں دکھ کی ہلکی سی سلگتی ہوئی آنچ نظر آتی ہے لیکن اس میں دکھ ، جھلاہٹ و غصہ کے بنا ایک ایسی کیفیت ہے جو میر کے یہاں موجود ہے ۔ناصر نے اپنی غزلوں میں جودکھ بیان کیے ہیں وہ آفاقی نظر آتے ہیں ۔محض حسن و عشق ہی نہیں بلکہ زندگی کا مکمل مشاہدہ ملتا ہے ۔ الغرض نئے دورکی شاعری میں قدیم لہجے کا عکس آپ کو ان کی شاعری میں پڑھنے کو ملے گی ۔
Showing posts with label NASIR KAZMI. Show all posts
Showing posts with label NASIR KAZMI. Show all posts
Monday, May 27, 2024
DEEWAN ( NASIR KAZMI )
’’ناصر کاظمی کے کلام میں جہاں ان کے دکھوں کی داستان، زندگی کی یادیں، نئی اور پرانی بستیوں کی رونقیں، ایک بستی سے بچھڑنے کا غم اور دوسری بستی بسانے کی حسرتِ تعمیر ملتی ہے، وہیں وہ اپنے عہد اور اس میں زندگی بسر کرنے کے تقاضوں سے بھی غافل نہیں رہتے۔ ان کے کلام میں ان کا عہد بولتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔‘‘
Subscribe to:
Posts (Atom)