اس کتاب سے ایک اقتباس۔ "دریائے سندھ عبور کرنے کا ارادہ کرر ہے تھے ۔ معلوم ہوا کہ "سید با یزید ابن یزید یزدانی" آستان بوسی کی سعادت کے متلاشی ہیں۔ جب بُلایا، تو دیکھا کہ فقط ایک آدمی تھا۔ ہم نے ازراہ تلطف اسے گلے لگا لیا اور پیار سے بھینچا۔ وہ بے ہوش ہو گیا۔ اسے فوراً باہر لے گئے، لخلخہ سُنگھایا گیا، مالش کی گئی۔ دیر کے بعد اسے ہوش آیا تو وہ نذریں جو پیش کرنے لایا تھا، لے کر رفو چکر ہوگیا۔ ہم نے اہلکاروں کو اس کے پیچھے دوڑایا کہ اگر خود نہیں آتا تو نذریں تو بھجوا دے۔ مگر اس کا کوئی پتہ نہ چلا۔ قلعے کا فوجدار ہماری سواری کے لئے ایک عجیب وغریب چوپایہ لایا، جسے ہاتھی کہتے ہیں۔ نہایت پر شوکت فیل جسم جانور ہے۔ اس کے دو دانت ہوتے ہیں، جو صرف دکھانے کے لئے ہیں۔ ناک، جس کو سونڈ کہا جاتا ہے، زمین کو چھوتی ہے۔ ہاتھی پر چڑھ کر آدمی دوسروں کے گھروں کے اندر سب کچھ دیکھ سکتا ہے۔ ہم نے سواری کا قصد کیا اور باگ ہاتھ میں لینی چاہی، وہ بولا، اس کی لگام نہیں ہوتی اور ڈرائیور علیحدہ بیٹھتا ہے۔ ہم نے ایسے بے لگام جانور پر سواری سے انکار کر دیا۔"
Showing posts with label طنز و مزاح. Show all posts
Showing posts with label طنز و مزاح. Show all posts
Thursday, January 12, 2017
Saturday, December 31, 2016
Khumar-e-Gandum (Ibn-e-Insha)
ہم ہنسنے ہنسانے کے موڈ میں نہیں تھے۔ خوش رہنے یا خوش رکھنے کو شریفوں کا فعل نہ سمجھتے تھے اور اب جب یہ مضمون کتابی صورت میں آپ کے سامنے ہیں پاکستانی قوم پہلے سے زیادہ سخت اور کڑی ہو گئی ہے اور اپنے آپ پر ہنسنے یا دوسروں کی حماقتوں سے لطف اندوز ہونے کے بجائے اپنی بیشتر توجہ ، احتساب عام، پر صرف کرنے میں مصروف ہے۔
Labels:
Ibn-e-Insha,
Khumar-e-Gandum,
Urdu,
Urdu Classics,
Urdu Satire,
ابن انشا,
اردو,
خمار گندم,
طنز و مزاح
Tuesday, November 22, 2016
Subscribe to:
Posts (Atom)