اس کتاب سے ایک اقتباس۔ "دریائے سندھ عبور کرنے کا ارادہ کرر ہے تھے ۔ معلوم ہوا کہ "سید با یزید ابن یزید یزدانی" آستان بوسی کی سعادت کے متلاشی ہیں۔ جب بُلایا، تو دیکھا کہ فقط ایک آدمی تھا۔ ہم نے ازراہ تلطف اسے گلے لگا لیا اور پیار سے بھینچا۔ وہ بے ہوش ہو گیا۔ اسے فوراً باہر لے گئے، لخلخہ سُنگھایا گیا، مالش کی گئی۔ دیر کے بعد اسے ہوش آیا تو وہ نذریں جو پیش کرنے لایا تھا، لے کر رفو چکر ہوگیا۔ ہم نے اہلکاروں کو اس کے پیچھے دوڑایا کہ اگر خود نہیں آتا تو نذریں تو بھجوا دے۔ مگر اس کا کوئی پتہ نہ چلا۔ قلعے کا فوجدار ہماری سواری کے لئے ایک عجیب وغریب چوپایہ لایا، جسے ہاتھی کہتے ہیں۔ نہایت پر شوکت فیل جسم جانور ہے۔ اس کے دو دانت ہوتے ہیں، جو صرف دکھانے کے لئے ہیں۔ ناک، جس کو سونڈ کہا جاتا ہے، زمین کو چھوتی ہے۔ ہاتھی پر چڑھ کر آدمی دوسروں کے گھروں کے اندر سب کچھ دیکھ سکتا ہے۔ ہم نے سواری کا قصد کیا اور باگ ہاتھ میں لینی چاہی، وہ بولا، اس کی لگام نہیں ہوتی اور ڈرائیور علیحدہ بیٹھتا ہے۔ ہم نے ایسے بے لگام جانور پر سواری سے انکار کر دیا۔"
سائز: 3.8 میگا بائٹس
No comments:
Post a Comment