Monday, May 6, 2024

Patras Kay Mazameen By Patras Bukhari

 



پطرس کے مضامین میں ظرافت عام رواج سے ہٹ کر ہے۔ اور اس کا آغاز مختصر دیباچے ہی سے ہوتا ہے:
اگر یہ کتاب آپ کو کسی نے مفت بھیجی ہے تو مجھ پر احسان کیا ہے اگر آپ نے کہیں سے چرائی ہے تو میں آپ کے ذوق کی داد دیتا ہوں اپنے پیسوں سے خریدی ہے تو مجھے آپ سے ہمدردی ہے (یعنی آپ کی حماقت سے ہمدردی ہے) اب مصلحت یہی ہے (کہ آپ اپنی حماقت کونبا ہیں) اور اسے حق بجانب ثابت کریں۔ نہ معلوم یہ حقیقت ہے یا میری شک بھری طبیعت کہ پطرس کے اظہار حقیقت کی تہ میں بھی ظرافت کی ایک لہر دوڑی ہوئی ہے کیونکہ اپنے استاد کی خدمت میں اعترافِ ممنونیت ان الفاظ میں کیاہے: ”اس کتاب پر نظر ثانی کی اور اسے بعض لغزشوں سے پاک کیاجس کا مفہوم میرے نزدیک اس کے سوا نہیں ہوسکتا کہ جہاں کوئی بات ہوش مندی کی دیکھی اسے حماقت میں بدل دیا۔
کتاب میں گیارہ مضامین ہیں جو بہ ظاہرہولا خبطا پنکے شاہکار ہیں مگر فی الحقیقت سوسائٹی اور تمدن کی دکھتی رگوں کو چھوا ہے اور خامکاریوں اور سفیہانہ رواسم وتوہمات کا پردہ فاش کیا ہے۔ پطرس نے اپنا مطلب زیادہ تر مزاح میں طنز کی پُٹ دے کر نکالا ہے۔ بخلاف دیگر ظرافت نگاروں کے جو تمسخر کو آلہٴ کار بناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مضامین میں باوجود اس احساس کے کہ ہم کو (اور معاف کیجئے گا آپ کو) بےدال کا بودم بنایا جا رہا ہے جھنجھلاہٹ کے بجائے گدگدانے کی ادا نکلتی ہے اور اسی کے ساتھ غو وتعمق کی دعوت ہوتی ہے۔
ان مضامین کے کاتب کو بھی ظرافت سے کافی بہرہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ علاوہ دیگر مخترعات کےہاسٹل میں پڑھناکے عنوان کو ہر جگہہاسٹل پر پڑنابنا دیا ہے۔ مضمون میں ظرافت کی چاشنی پہلے ہی فقرے سے شروع ہے:
ہم نے کالج میں تعلیم تو ضرور پائی اور رفتہ رفتہ بی اے بھی پاس کر لیا۔ رفتہ رفتہ اور بھی کی معنویت دعوت نظر دیتی ہے آگے چل کر بی اے کے خانے اس خوبی سے گنوائے ہیں کہ بایدوشاید۔
مضمون میں ایسے خاندان کی ذہنیت کا خاکہ ہے جو مہذب اور اخلاق پسندیدہ کا مالک ہونے کے باوصف قدامت پسند ہے اور حال کو ماضی کے آئینہ میں مشتبہ نظروں سے دیکھتا ہے۔ لڑکے نے انٹرنس کا امتحان تیسرے درجے میں پاس کیا ہے تاہم خوشیاں منائی جا رہی ہیں دعوتیں ہو رہی ہیں۔ مٹھائی تقسیم کی جا رہی ہے۔ خاندان خوش حال ہے مگر باوجود استطاعت کے لڑکے کو مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے ولایت نہ بھیجنے کی معقول ترین وجہ یہ ہے کہ گردو نواح سے کسی کا لڑکا ابھی تک ولایت نہ گیا تھا۔
بڑی ہمت کی تو لڑکے کو لاہور بھیج دیا مگرہاسٹل کے بجائے ایک ایسے اجنبی عزیز کے یہاں قیام کا فیصلہ کیا جاتا ہے جس سے رشتہ داری کی نوعیت معلوم کرنے کے لئےخاندانی شجرے کی ورق گردانی کرنا پڑتی ہے تاہم ہاسٹل پر اس کے گھر کو یہ کہہ کر ترجیح دی جاتی ہے کہگھر پاکیزگی اور طہارت کا ایک کعبہ اور ہاسٹل گناہ ومعصیت کا دوزخ ہےضمناً نفسیات کے اس پہلو پر روشنی پڑی کہ جذبات کو دبا کر تحت الشعور میں دھکیل دینا ان کو دُند مچانے کے لئے آزاد چھوڑ دینا اور ارتفاع میں مشکلیں حائل کرنایا ارتفاع سے محروم کر دینا ہے۔ پطرس کے الفاظ میں:
اس سے تحصیل علم کا جو ایک ولولہ ہمارے دل میں اُٹھ رہا تھا وہ کچھ بیٹھ سا گیا۔ ہم نے سوچا ماموں لوگ (ماموں قسم کے لوگ؟) اپنی سرپرستی کے زعم میں والدین سے بھی زیادہ احتیاط برتیں گے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہمارے دماغی اور روحانی قوےٰ کو پھلنے پھولنے کا موقع نہ ملے گا اور تعلیم کا اصل مقصد فوت ہوجائے گا۔ چنانچہ وہی ہوا۔
بعد ازاں اسوہی ہواکی شرح ہے۔ امتحانات میں پےدر پے فیل ہونا، صلاحیتوں کی بےراہ روی اختیار کرنا۔ صاف گوئی اور راستبازی کاکج مج راستے اختیار کرنا۔ غسل خانے میں چھپ چھپ کر سگریٹ پینا۔ المختصر وہ آزادی وفراخی ووارفتگی نصیب نہ ہوئی جو تعلیم کا اصل مقصد ہے۔
پطرس نے مسئلے کے اس پہلو کو ظریفانہ انداز میں اس حسن وخوبی سے وضاحت کی ہے کہ طبیعت عش عش کرتی ہے۔ تفصیل میں جانا مضمون کی لذتیت کو فنا کر دینا ہے۔ پڑھئے اور لطف اندوز ہوجائے۔
کتاب کا مقصد بھی غالباً فوت ہو جائے گا اس کے مضامین کی چیر پھاڑ کی گئی۔ کتاب انگریزی کے اس مقولے کی بہترین ترجمان ہے کہ مذاق کے پردے میں بہت سی سنجیدہ باتیں کہہ دی جاتی ہیں۔

Thursday, March 14, 2024

Dastak Na Do By Altaf Fatima

 


الطاف فاطمہ اردوکی اہم افسانہ و ناول نگار اور مترجم تھیں۔ انہوں نے نصف صدی سے زیادہ مدت میں ادب کو کئی بے مثال ناول، افسانوی مجموعے اور تراجم سے مالامال کیا،ان کا یہ ناول "دستک نہ دو" ایک شاہکار کی حثییت رکھتا ہے، یہ ایک مختلف نوعیت کا نہائت شاندار ناول ہے،جس کے کردار کمال کےہیں،ان کو بے پناہ شہرت و مقبولیت کا سبب ان کا یہی یادگار ناول رہا۔ یہ ناول اردو نصاب میں بھی شامل رہا ہے۔ اس کا انگریزی میں ترجمہ بھی ہوا۔ پی ٹی وی پراس ناول کی ڈرامائی تشکیل بھی کی گئی،یہ ناول تقسیمِ ہند سے قبل کے چند سالوں کےحوالے سےایک اچھا ناول ہے۔ اس میں متحدہ ہندوستان کے شان دار ماضی کا ذکر ہے، جس میں ہندو اور مسلمان مل جُل کر رہتے تھے۔یہ ناول تاریخ کے فیصلہ کُن برس کے واقعات کی تفصیلی تصویر پیش کرتا ہے۔

Aangan Novel By Khadija Mastoor

 


آنگن ناول ہندوستان میں آزادی کی تحریک کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ یہ بیسویں صدی کے پہلے نصف میں اہم سیاسی پیش رفت کا ایک مختصر جائزہ پیش کرتا ہے، بشمول ہندوستان میں تحریک خلافت، دوسری جنگ عظیم، جاپان کا حملہ، اور قرارداد پاکستان۔


اگر ہم کہانی اور کرداروں کی بات کریں تو یہ ہندوستان کے ایک خوشحال خاندان کی کہانی ہے۔ وہ نسل در نسل اپنی خاندانی حویلی میں پرورش پاتے رہے۔ ان کا زوال اس وقت شروع ہوتا ہے جب وہ اپنے والد کی موت کے بعد خاندانی حویلی فروخت کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ وہ خاندانی حویلی بیچنے کے بعد الگ گھروں میں منتقل ہو جاتے ہیں۔

اس ناول کے مرکزی کردار عالیہ، چھمی اور جمیل ہیں۔ اس ناول میں خواتین کی شمولیت اور نمائندگی غالب نظر آتی ہے۔ ایک واضح تاثر ہے کہ جہاں ایک سمجھدار عورت گھر کو ترقی دے سکتی ہے وہیں عورت کی انا اور نفرت بھی اسے تباہ کر سکتی ہے۔


ناول بتاتا ہے کہ ملک کے بدلتے سیاسی تناؤ نے خاندانوں کو کیسے متاثر کیا۔ جیسے جیسے سیاسی اور نظریاتی اختلافات پیدا ہوئے، اسی طرح خاندانوں میں بھی اختلافات پیدا ہوئے۔