نسیم حجازی اردو کے مشہور ناول نگار تھے جو تاریخی ناول نگاری کی صف میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ ان کا اصل نام شریف حسین تھا لیکن وہ زیادہ تر اپنے قلمی نام “نسیم حجازی” سے معروف ہیں۔ “قافلۂ حجاز” ان کا تحریر کردہ ناول ہے۔
نسیم حجازی اردو کے مشہور ناول نگار تھے جو تاریخی ناول نگاری کی صف میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ ان کا اصل نام شریف حسین تھا لیکن وہ زیادہ تر اپنے قلمی نام “نسیم حجازی” سے معروف ہیں۔ “قافلۂ حجاز” ان کا تحریر کردہ ناول ہے۔
آنگن ناول ہندوستان میں آزادی کی تحریک کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ یہ بیسویں صدی کے پہلے نصف میں اہم سیاسی پیش رفت کا ایک مختصر جائزہ پیش کرتا ہے، بشمول ہندوستان میں تحریک خلافت، دوسری جنگ عظیم، جاپان کا حملہ، اور قرارداد پاکستان۔
اگر ہم کہانی اور کرداروں کی بات کریں تو یہ ہندوستان کے ایک خوشحال خاندان کی کہانی ہے۔ وہ نسل در نسل اپنی خاندانی حویلی میں پرورش پاتے رہے۔ ان کا زوال اس وقت شروع ہوتا ہے جب وہ اپنے والد کی موت کے بعد خاندانی حویلی فروخت کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ وہ خاندانی حویلی بیچنے کے بعد الگ گھروں میں منتقل ہو جاتے ہیں۔
اس ناول کے مرکزی کردار عالیہ، چھمی اور جمیل ہیں۔ اس ناول میں خواتین کی شمولیت اور نمائندگی غالب نظر آتی ہے۔ ایک واضح تاثر ہے کہ جہاں ایک سمجھدار عورت گھر کو ترقی دے سکتی ہے وہیں عورت کی انا اور نفرت بھی اسے تباہ کر سکتی ہے۔
ناول بتاتا ہے کہ ملک کے بدلتے سیاسی تناؤ نے خاندانوں کو کیسے متاثر کیا۔ جیسے جیسے سیاسی اور نظریاتی اختلافات پیدا ہوئے، اسی طرح خاندانوں میں بھی اختلافات پیدا ہوئے۔
“The Reluctant Fundamentalist” is a novel written by the Pakistani Mohsin Hamid in In 2012. Mira Nair directed the film with the collaboration of the novelist. The story is about a young Pakistani named Changez and his life, his changings and reflections before and after the attack on the Twin Towers. This novel is dived into 12 chapters and each one of them has a specific function.
'گردش رنگ اور چمن" ناول کو مصنف قرۃ العین حیدر نے ایک نئے اور مختلف انداز سے لکھا ہے۔ یہ ایک بہترین سماجی، رومانوی اور ثقافتی کہانی ہے جو بہت سے سماجی مسائل کو بیان کرتی ہے۔ مصنف نے کہانی میں محبت کرنے والوں کے احساسات اور جذبات کے بارے میں تفصیل سے بات کی ہے۔
کئی چاند تھے سر آسماں کے مصنف شمس الرحمٰن فاروقی اُردو دنیا کی ایسی عہدساز شخصیت ہیں جن کے کام، علمی توفیقات اور تخلیقی امتیازات کا ہر سطح پراعتراف کیا گیا۔ ہندوستانی حکومت نے انہیں ’’پدم شری ‘‘ جیسا بڑا ایوارڈ دیا تو حکومت پاکستان کی طرف سے ’’ستارۂ امتیاز‘‘ کے حق دار ٹھہرائے گئے۔
مدتوں بعد اُردو میں ایک ایسا ناول آیا ہے جس نے ہند و پاک کی ادبی فضا میں ہلچل مچا دی ہے۔ یہاں اس ناول میں ہم تاریخ کو تخلیقی طور پر فکشن کے رُوپ میں ڈھلتے ہوئے دیکھتے ہیں لہٰذا ’’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ کچھ الگ طرح کا ناول ہے۔ ہم اسے زوال آمادہ مغلیہ سلطنت کے آخری برسوں کی دستاویز کہہ سکتے ہیں۔ شمس الرحمٰن فاروقی کو جزئیات پر مکمل مہارت ہے۔ انھوں نے وزیر خانم کی زندگی کو اس درجہ لطافت، نزاکت اور تمام باریک جزئیات کے ساتھ پیش کیا ہے کہ ہمارے سامنے ایک پوری تہذیب، جسے ہند مسلم تہذیب کہیے اور اس کے آخری دنوں میں اس کی چمک دمک اور برگ وبار کا پورا نقشہ آجاتا ہے اور وزیر خانم کا کردار بھی کیا کردار ہے کہ وہ تنہا اپنی ذات میں اس تہذیب کا مجسم وجود معلوم ہوتی ہے۔