Saturday, June 1, 2024

KULLIYAT-E-INSHA ALLAH KHAN ( Insha Allah Khan Insha )


 ریختہ گوئی میں انشا کا خاص اسلوب ہے ۔ اس میں ان کا کوئی ہم پلہ اور نظیر نہیں ہے۔ ان کے کلام میں فصاحت بھرپور ہوتی ہے ۔ فارسی اور اردو زبانوں میں شاعری کمال درجے کی ہے ۔ انشاء نے غزل میں الفاظ کے متنوع استعمال سے تازگی پیدا کرنے کی کوشش کی اور اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی رہے۔ تاہم بعض اوقات محض قافیہ پیمائی اور ابتذال کا احساس بھی ہوتا ہے۔ انشاء کی غزل کا عاشق لکھنوی تمدن کا نمائندہ بانکا ہے۔ جس نے بعد ازاں روایتی حیثیت اختیار کر لی جس حاضر جوابی اور بذلہ سنجی نے انہیں نواب سعادت علی خاں کا چہیتا بنا دیا تھا۔ اس نے غزل میں مزاح کی ایک نئی طرح بھی ڈالی۔ زبان میں دہلی کی گھلاوٹ برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ اس لیے اشعار میں زبان کے ساتھ ساتھ جو چیز دگر ہے اسے محض انشائیت ہی سے موسوم کیا جاسکتا ہے۔ زیر نظر کلیات انشا کی ابتدا یوم الست کی یاد دہانی سے ہوئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ تخلیقِ بنی نوع انسان کا مقصد کیا ہے۔ آگے مناقب و قطعات پیش کیے گئے ہیں ، ان کی تعداد ۴۵۸ ہے ۔آخر میں "انشا کا غیر مطبوعہ کلام" کے عنوان کے تحت ان کے غیر مطبوعہ چند شعری نمونے پیش کیے گئے ہیں، یہ نمونے پٹنہ کے دانش کدہ سے حاصل ہوئے ہیں۔ اگر کہیں پر شعری الفاظ یا مفہوم میں اغلاق نظر آیا تو اس کی تشریح فٹ نوٹ لگا کر کردی گئی ہے۔ قطعات کے ردیف کی ترتیب حروف تہجی کے حساب سے ہے ۔ انشا کا کلام ادب کا پرتو، جوانوں کی امنگوں کا عکس ، ارمانوں کا مرقع اور ولولوں کا خاکہ ہوتا ہے۔

Gulzar-i-Naseem ( Pandit Daya Shankar Naseem Lakhnawi )


 مثنوی"گلزار نسیم" پنڈت دیا شنکر نسیم کی وہ مثنوی ہے جس نے انہیں حیات جاوید عطا کی اور یہی وہ مثنوی ہے جسے لکھنو کے دبستان شاعری کی پہلی طویل نظم کا شرف حاصل ہے،مثنوی "گلزار نسیم" پنڈت دیا شنکر نسیم کی لکھی ہوئی ایک عشقیہ مثنوی ہے جو "قصۂ گل بکاؤلی" کے نام سے مشہور ہے،گلزارِ نسیم میں تشبیہ اور استعار ات کا خوبصورت استعمال ہوا ہے،مثنوی کے پہلے شعر سے لے کر آخری شعر تک تواتر کے ساتھ یہ اندازِ بیان برقرار رہتا ہے اور اس طرح یہ گلزارِ نسیم لکھنوی تہذیب کی ترجمان بن جاتی ہے۔ "گلزار نسیم" میں نوابین اودھ کے عہد کی تہذیب نظر آتی ہے "گلزار نسیم" میں پرکاری کا جادو ہے، گلزار نسیم کی ایک خصوصیت اس کے پلا ٹ کی پیچیدگی ہے یہ صرف تاج الملوک اور بکاولی یا پھر صرف ایک پھول حاصل کرنے کی کہانی نہیں ہے بلکہ اس میں کئی کہانیاں گُتھ گئی ہیں۔ اس نسخہ کو رشید حسن خان نے مرتب کیا ہے۔