علی پور کا ایلی اردو زبان کے مشہور ناولوں میں ایک ہے جو خودنوشت سوانح عمری کے انداز میں تحریر کیا گیا ہے، جس کے مصنف ممتاز مفتی ہیں۔ یہ ایک ضخیم ناول ہے جس کا مرکزی کردار الیاس عرف ایلی ہے جو خود مصنف کی ذات ہے۔ اگرچہ ابتدا میں مصنف نے یہ بات ظاہر نہیں کی (1995ء میں اس بات کا انکشاف خود مصنف نے کیا)۔ کہانی اور کردار بظاہر افسانوی ہیں لیکن مفتی کی زندگی کے کئی حقیقی پہلو اس میں واضح ہیں۔ جیسے آصفی خاندان حقیقتاً بھی مفتی کا ہی خاندان ہے۔ اسی طرح مقامات کے اصل نام لکھے گئے ہیں۔ ابن انشاء نے اسے اردو کا گرو گرنتھ کہا ہے۔ اسے آدم جی ادبی انعام کے حوالے سے اسے کافی شہرت حاصل ہوئی۔ بقول ابن انشا یہ کتاب اس لیے مشہور ہوئی کہ اسے آدم جی اانعام نہ مل سکا جبکہ بانو قدسیہ، جمیل الدین عالی اور قدرت اللہ شہاب وغیرہ نے اس کی تعریف کی ہے۔ ابتدا میں جب یہ شائع ہوا تو اس کی 250 جلدیں تھیں لیکن بے حد مقبول ہوئیں۔
Showing posts with label اردو کلاسیک. Show all posts
Showing posts with label اردو کلاسیک. Show all posts
Friday, July 26, 2019
Wednesday, January 25, 2017
Adabi Khutoot-e-Ghalib (Mirza Muhammad Askari)
غالبا اردو معلے اور عود ہندی دو ہی کتابیں ایسی ہیں جو مرزا غالب کے کمال اردو نثر نگاری کی شاہد عادل کہی جا سکتی ہیں۔ مولانا حالی نے "یادگارِ غالب: میں "لطائف غیبی" ، "تیغ تیز" اور کسی ناتمام اردو قصہ کو بھی اُن کی تصانیف نثر اردو میں شمار کیا ہے۔ شروع میں مرزا اپنے خطوط کو کیجا کرنے اور شائع کرنے کے سخت خلاف تھے۔
جبکہ یہ معلوم ہو گیا کہ مرزا کے خطوط ہی اون کی نثر اردو کے بڑے کارنامے ہیں تو اب یہ دیکھنا ہے کہ انکی خطوط نویسی کس انداز کی ہے جس نے اون کو نثر نگاروں کی صف اولین میں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان سب سے آگے پہنچا دیا ہے۔
Wednesday, January 18, 2017
Akhbaari Lughaat (Munshi Zia-ud-Din Ahmad)
اس کتاب میں وہ تمام الفاظ حروف تہجی کی ترتیب سے جمع کر دئیے گئے ہیں جن کا استعمال اردو اخباروں میں ہوتا ہے۔ اور آسان سلیس اور صاف اردو زبان میں ان کی شرح کی گئی ہے۔ اور آخیر میں دو ضمیموں کے ذریعہ ہندوستان کے طرز حکومت اور انگلستان کے طریقہء حکومت کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ کتاب 1915 میں لکھی گئی اور ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی اجازت سے ان کے نام سے منسوب کی گئی۔
Monday, January 16, 2017
Fasaana-e-Ajaib (Mirza Rajab Ali Beg)
بقول شمس الدین احمد، ”فسانہ عجائب لکھنو میں گھر گھر پڑھا جاتا تھا اور عورتیں بچوں کو کہانی کے طور پر سنایا کرتی تھیں اور بار بار پڑھنے سے اس کے جملے اور فقرے زبانوں پر چڑھ جاتے تھے۔“
سرور 1786ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے اور1867ء کو بنارس میں وفات پائی۔ سرور کو فارسی اور اردو پر پوری پوری دسترس حاصل تھی۔ شعر و شاعری کے بڑے شوقین تھے۔ فسانہ عجائب ان کی سب سے مشہور تصنیف ہے جوایک ادبی شاہکار اور قدیم طرز انشاء کا بہترین نمونہ ہے۔ اس کی عبارت مقفٰفی اور مسجع ، طرز بیان رنگین اور دلکش ہے۔ ادبی مرصع کاری ، فنی آرائش اور علمی گہرائی کو خوب جگہ دی گئی ہے۔ اگرچہ فورٹ ولیم کالج کی سلیس نگاری نے مولانا فضلی اور مرزا رسوا کے پرتکلف انداز تحریر پر کاری ضرب لگائی تھی۔ اور اس کا ثبوت باغ و بہار کی سادہ و سلیس نثر ہے۔ تاہم پھر بھی اکثر ادباء ہٹ دھرمی کا ثبوت دیتے ہوئے قدیم طرز کے دلدادہ اور اور پرستار رہے۔ رجب علی بیگ سرور بھی اسی لکیر کو پیٹ رہے تھے۔ چنانچہ باغ و بہار کے آسان اور عام فہم اسلوب پر اس زمانے میں اعتراضات کئے جانے لگے تو انہوں نے اس کے مقابلے میں ”فسانہ عجائب“ کی صورت میں مشکل اور گراں عبارت لکھ کر ”باغ و بہار“ کی ضد پیش کی۔ اور اس زمانے میں خوب داد حاصل کی۔
Labels:
Mirza Rajab Ali Beg,
Urdu,
Urdu Classics,
Urdu Novel,
اردو,
اردو کلاسیک,
اردو ناول,
مرزا رجب علی بیگ
Bagh-o-Bahar (Mir Aman Dehelvi)
باغ وبہار میرامن دہلوی کی داستانوی کتاب ہے جو اُنھوں نے فورٹ ولیم کالج میں جان گلکرسٹ کی فرمائش پر لکھی۔یہ حقیقتا امیر خسرو کے فارسی داستان قصہ چہار درویش کا پہلا اردو ترجمہ ہے۔ بقول سید محمد ، ” میرامن نے باغ وبہار میں ایسی سحر کاری کی ہے کہ جب تک اردو زبان زندہ ہے مقبول رہے گی اور اس کی قدر و قیمت میں مرورِ ایام کے ساتھ کوئی کمی نہ ہوگی۔“ باغ و بہار فورٹ ولیم کا لج کی دین ہے جو انگریزوں کو مقامی زبانوں سے آشنا کرنے کے لئے قائم کیا گیاتھا۔ میرامن نے باغ و بہار جان گل کرائسٹ کی فرمائش پر میر حسین عطا تحسینؔ کی نو طرز مرصع سے ترجمہ کی۔ اور اس طرح یہ داستان اردو نثر میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لئے کہ اردو نثر میں پہلی مرتبہ سلیس اور آسان عبارت کا رواج ہوا جو اِسی داستان کی وجہ سے ممکن ہوا۔ آگے چل کر غالب کی نثر نے اس کمال تک پہنچا دیا۔ اس لئے تو مولوی عبدالحق کا کہنا ہے کہ اردو نثر کی ان چند کتابوں میں باغ و بہار کو شمار کیا جاتا ہے جو ہمیشہ زندہ رہنے والی ہیں اور شوق سے پڑھی جائیں گی۔ (وکی پیڈیا)
Labels:
Mir Aman,
Mir Aman Dehelvi,
Urdu,
Urdu Classics,
Urdu Novel,
اردو,
اردو کلاسیک,
اردو ناول,
میر امن,
میر امن دہلوی
Thursday, January 12, 2017
Anandi (Ghulam Abbas)
آنندی سے اقتباس: "بلديہ کا اجلاس زوروں پر تھا، ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور خلاف معمول ايک ممبر بھي غير حاضر نہ تھا، بلديہ کے زير بحث مسئلہ يہ تھا کہ زنان بازاري کو شہر بدر کر دياجائے، کيوں کہ ان کا وجود انسانيت، شرافت اور تہذيب کے دامن پر بد نما داغ ہے۔ بلديہ کے ايک بھاري بھر کم رکن جو ملک و قوم کے سچے خير خواہ مانے جاتے تھے نہايت فصاحت سے تقرير کر رہے تھے “ اور پھر حضرات آپ يہ بھي جانتے ہیں کہ یہ بازار شہر کے وسط میں واقع ہے چنانچہ ہر شريف آدمي کو چار وناچار اس بازار سے گزرنا پڑتا ہے، علاوہ ازيں شرفا کي پاک دامن بہو بيٹياں بھی اس بازار کی تجارتي اہميت کي وجہ سے يہاں آنے اور خريد و فروخت کرنے پر مجبور ہيں ، صاحبان جب يہ شريف زادياں ان آبرو باختہ اور نيم عرياں بيواؤں کے بناؤ سنگھار کو ديکھتي ہيں تو قدرتي طور پر ان کے دل ميں بھي آرائش و دل ربائي کي نئي نئي امنگيں اور ولولے پيدا ہوتے ہيں اور اپنے غريب شوہروں سے طرح طرح کے غازوں لوِنڈروں زرق برق ساڑيوں اور قيمتي زيوروں کي فرمائشيں کرنے لگتي ہيں نتيجہ يہ ہوتا ہے کہ ان کا پر مسرت گھر ان کا راحت کدہ ہميشہ کيلئے جہنم کا نمونہ بن جاتا ہے۔"
Labels:
Anandi,
Ghulam Abbas,
Urdu,
Urdu Classics,
Urdu Fiction,
آنندی,
اردو,
اردو افسانہ,
اردو کلاسیک,
غلام عباس
Subscribe to:
Posts (Atom)