Showing posts with label سعادت حسن منٹو. Show all posts
Showing posts with label سعادت حسن منٹو. Show all posts

Saturday, June 15, 2024

کالی شلوار - سعادت حسن منٹو

کالی شلوار

  منٹو جیسا لکھنے والا ہو تو اس کی ہر تحریر انوکھی ہوتی ہے ۔مگر کچھ تحریریں ایسی ہیں جنہوں نے منٹو جیسے لوگوں کو منٹو بنایا ہے۔ انہی میں سے ایک کہانی اس افسانوی مجموعہ میں شامل ہے جسے ہم "کالی شلوار" کے نام سے جانتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں کبوتروں والا سائیں ، الو کا پٹھا ، نامکمل تحریر، قبض، ایکٹرس کی آنکھ ، وہ خط جو پوسٹ نہ کئے گئے، مصری کی ڈلی ،ماتمی جلسہ، تلون اور سجدہ۔ اس مجموعہ کی سب سے بہترین کہانی کالی شلوار ہے۔ 
کالی شلوار سلطانہ نامی ایک ایسی بے بس، بے سہارا طوائف کی کہانی ہے جو اس ذلیل پیشے کو اپنانے کے بعد بھی پیٹ بھر روٹی نہیں کما سکتی۔ جب وہ انبالہ چھاونی میں رہتی تھی تب اس کے پاس گاہکوں کی کمی نہ تھی لیکن ایک دن خدا بخش کے کہنے پر دہلی آگئی جہاں گاہک اکا دکا ہی نظر آتے تھے۔
منٹو نے اس افسانے میں سلطانہ کے توسط سے ایک طوائف کی زندگی کے داخلی کرب و اضطراب کو بیان کیا ہے۔ طوائف کی زندگی اندر سے کتنی ویران اور بنجر ہوتی ہے ،سلطانہ اس کی ایک بہتریں مثال ہے۔ اس کہانی کے علاوہ دوسری کہانیاں بھی دلچسپ ہیں۔ منٹو کے شائقین کے لئے یہ مجموعہ نہایت ہی عمدہ کہانیوں کا مرقع ہے۔ 

Thursday, June 13, 2024

اوپر نیچے اور درمیان - سعادت حسن منٹو

اوپر  نیچے اور درمیان

 سعادت حسن منٹو پر متحدہ ہندوستان اور پاکستان میں فحاشی کے الزام میں کل ملا کر چھ مقدمے چلے۔ پانچ میں وہ باعزت بری ہوئے۔اوپر  نیچے اور درمیاننامی افسانے پر مقدمے میں انہیں کراچی کی عدالت سے سزا ہوئی۔ منٹو اس لغویت سے اس قدر تنگ آ چکے تھے کہ انہوں نے اپنا دفاع کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔ عدالت میں پہنچے اور سیدھا پوچھ لیا کہ کتنا جرمانہ ادا کرنا ہے۔ جرمانہ ادا کیا اور باہر آ گئے۔ دراصل منٹو ایک 
نشبتاً کھلے ثقافتی ماحول کا عادی تھا۔ اس نے اپنے ایک سے زیادہ افسانوں میں گاندھی جی کا بھی پھلکا اڑایا تھا۔ 
اسے پاکستان میں فنی آزادی کی حدود اور چوہدری محمد حسین نامی پنجاب پریس برانچ کے اہل کار کے دائرہ اختیار کا اندازہ نہیں ہو سکا۔اوپر نیچے اور درمیاندراصل ایک بڑے پاکستانی منصب دار اور ان کی نجیب الطرفین اہلیہ کے باہمی دلچسپی  کے امور کا حقیقی بیان تھا۔ منٹو کو یہ واردات کہیں سے ہاتھ آ گئی۔ افسانہ لکھ دیا۔ مجروح فریق نے راز ہائے درون خواب گاہ کے انکشاف پر مقدمہ دائر کر دیا۔  منٹو غریب کو کیا معلوم تھا کہ پاکستان مین خضر صورت عمائدین اور آپا جان کے اشغال خفیفہ حساس امور میں آتے ہیں اور بارسوخ خواتین و حضرات بوجوہ زود حس بھی ہوتے ہیں۔