سعادت حسن منٹو پر متحدہ ہندوستان اور پاکستان میں فحاشی کے الزام میں کل ملا کر چھ مقدمے چلے۔ پانچ میں وہ باعزت بری ہوئے۔ “اوپر نیچے اور درمیان” نامی افسانے پر مقدمے میں انہیں کراچی کی عدالت سے سزا ہوئی۔ منٹو اس لغویت سے اس قدر تنگ آ چکے تھے کہ انہوں نے اپنا دفاع کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔ عدالت میں پہنچے اور سیدھا پوچھ لیا کہ کتنا جرمانہ ادا کرنا ہے۔ جرمانہ ادا کیا اور باہر آ گئے۔ دراصل منٹو ایک نشبتاً کھلے ثقافتی ماحول کا عادی تھا۔ اس نے اپنے ایک سے زیادہ افسانوں میں گاندھی جی کا بھی پھلکا اڑایا تھا۔ اسے پاکستان میں فنی آزادی کی حدود اور چوہدری محمد حسین نامی پنجاب پریس برانچ کے اہل کار کے دائرہ اختیار کا اندازہ نہیں ہو سکا۔ “اوپر نیچے اور درمیان” دراصل ایک بڑے پاکستانی منصب دار اور ان کی نجیب الطرفین اہلیہ کے باہمی دلچسپی کے امور کا حقیقی بیان تھا۔ منٹو کو یہ واردات کہیں سے ہاتھ آ گئی۔ افسانہ لکھ دیا۔ مجروح فریق نے راز ہائے درون خواب گاہ کے انکشاف پر مقدمہ دائر کر دیا۔ منٹو غریب کو کیا معلوم تھا کہ پاکستان مین خضر صورت عمائدین اور آپا جان کے اشغال خفیفہ حساس امور میں آتے ہیں اور بارسوخ خواتین و حضرات بوجوہ زود حس بھی ہوتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment