مثنوی زہر عشق ایک مختصر عشقیہ مثنوی ہے، جو نواب مرزا شوقؔ کی معرکۃ الآراء تصنیف ہے، اس میں جذبات و احساسات کو کردار کی زبانی اس سادہ، صاف اور نادر الفاظ کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی، چوں کہ شوق نے اپنی پوری زندگی لکھنؤ میں بسر کی، اس لیے وہاں کی بیگماتی زبان اور تہذیب اور محاورات و ضرب الامثال پر کافی مہارت رکھتے تھے انہوں نے نہایت اچھوتے انداز میں وہاں کی تہذیب کو اشعار کے قالب میں ڈھالا کہ پوری دنیائے اردو ادب اسے ہاتھوں ہاتھ لینے پر مجبور ہو گئی اور آج بھی اس کی اہمیت و افادیت مسلم ہے، بعض حضرات نے ان پر ابتذال کا بھی الزام عائد کیا ہے، مگر یہ صحیح نہیں ہے انہوں نے جس معاشرہ کی تہذیب کو اپنی مثنوی میں جگہ دی ہے اگر اس کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو خود بہ خود الزام بے۔ اس دور میں کئی تھیٹریکل کمپنیوں نے اس مثنوی کو اسٹیج پر پیش کیا۔ ایک بار ایک کمپنی نے اسے لکھنؤ میں اسٹیج کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس مثنوی اور اس کی پیش کشی سے متاثر ہو کر ایک لڑکی نے خودکشی کر لی۔ اس کے بعد حکومت ہند نے اس کو اسٹیج پر پیش کرنے کی ممانعت کر دی اور اسے عریاں قرار دے کر اس کی اشاعت پر بھی پابندی لگا دی۔ 1919ء میں اہل ذوق حضرات کی کوششوں سے پابندی اٹھا لی گئی تو نظامی بدایونی نے ستمبر1919ء میں اس مثنوی کا ایک شاندار ایڈیشن شائع کیا
No comments:
Post a Comment