نسیم حجازی کا اصل نام شریف حسین تھا لیکن وہ زیادہ تر اپنے قلمی نام "نسیم حجازی" سے معروف ہیں۔ وہ تقسیم ہند سے قبل پنجاب کے ضلع گرداسپور میں 1914ء میں پیدا ہوئے۔ برطانوی راج سے آزادی کے وقت ان کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان آگیا اور باقی کی زندگی انہوں نے پاکستان میں گزاری۔ وہ مارچ 1996ء میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے ناول مسلمانوں کے عروج و زوال کی تاریخ پر مبنی ہیں جنہوں نے اردو خواں طبقے کی کئی نسلوں پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ وہ صرف تاریخی واقعات بیان کر کے نہیں رہ جاتے بلکہ حالات کی ایسی منظر کشی کرتے ہیں کہ قاری خود کو کہانی کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے اور ناول کے کرداروں کے مکالموں سے براہ راست اثر لیتا ہے۔
Saturday, January 28, 2017
Qaiser-o-Kisraa (Naseem Hijazi)
نسیم حجازی کا اصل نام شریف حسین تھا لیکن وہ زیادہ تر اپنے قلمی نام "نسیم حجازی" سے معروف ہیں۔ وہ تقسیم ہند سے قبل پنجاب کے ضلع گرداسپور میں 1914ء میں پیدا ہوئے۔ برطانوی راج سے آزادی کے وقت ان کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان آگیا اور باقی کی زندگی انہوں نے پاکستان میں گزاری۔ وہ مارچ 1996ء میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے ناول مسلمانوں کے عروج و زوال کی تاریخ پر مبنی ہیں جنہوں نے اردو خواں طبقے کی کئی نسلوں پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ وہ صرف تاریخی واقعات بیان کر کے نہیں رہ جاتے بلکہ حالات کی ایسی منظر کشی کرتے ہیں کہ قاری خود کو کہانی کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے اور ناول کے کرداروں کے مکالموں سے براہ راست اثر لیتا ہے۔
Kaleesa Or Aag (Naseem Hijazi)
نسیم حجازی کا اصل نام شریف حسین تھا لیکن وہ زیادہ تر اپنے قلمی نام "نسیم حجازی" سے معروف ہیں۔ وہ تقسیم ہند سے قبل پنجاب کے ضلع گرداسپور میں 1914ء میں پیدا ہوئے۔ برطانوی راج سے آزادی کے وقت ان کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان آگیا اور باقی کی زندگی انہوں نے پاکستان میں گزاری۔ وہ مارچ 1996ء میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے ناول مسلمانوں کے عروج و زوال کی تاریخ پر مبنی ہیں جنہوں نے اردو خواں طبقے کی کئی نسلوں پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ وہ صرف تاریخی واقعات بیان کر کے نہیں رہ جاتے بلکہ حالات کی ایسی منظر کشی کرتے ہیں کہ قاری خود کو کہانی کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے اور ناول کے کرداروں کے مکالموں سے براہ راست اثر لیتا ہے۔
Poras Kay Hathi (Naseem Hijazi)
نسیم حجازی کا اصل نام شریف حسین تھا لیکن وہ زیادہ تر اپنے قلمی نام "نسیم حجازی" سے معروف ہیں۔ وہ تقسیم ہند سے قبل پنجاب کے ضلع گرداسپور میں 1914ء میں پیدا ہوئے۔ برطانوی راج سے آزادی کے وقت ان کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان آگیا اور باقی کی زندگی انہوں نے پاکستان میں گزاری۔ وہ مارچ 1996ء میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے ناول مسلمانوں کے عروج و زوال کی تاریخ پر مبنی ہیں جنہوں نے اردو خواں طبقے کی کئی نسلوں پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ وہ صرف تاریخی واقعات بیان کر کے نہیں رہ جاتے بلکہ حالات کی ایسی منظر کشی کرتے ہیں کہ قاری خود کو کہانی کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے اور ناول کے کرداروں کے مکالموں سے براہ راست اثر لیتا ہے۔
Pardesi Darakht (Naseem Hijazi)
نسیم حجازی کا اصل نام شریف حسین تھا لیکن وہ زیادہ تر اپنے قلمی نام "نسیم حجازی" سے معروف ہیں۔ وہ تقسیم ہند سے قبل پنجاب کے ضلع گرداسپور میں 1914ء میں پیدا ہوئے۔ برطانوی راج سے آزادی کے وقت ان کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان آگیا اور باقی کی زندگی انہوں نے پاکستان میں گزاری۔ وہ مارچ 1996ء میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے ناول مسلمانوں کے عروج و زوال کی تاریخ پر مبنی ہیں جنہوں نے اردو خواں طبقے کی کئی نسلوں پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ وہ صرف تاریخی واقعات بیان کر کے نہیں رہ جاتے بلکہ حالات کی ایسی منظر کشی کرتے ہیں کہ قاری خود کو کہانی کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے اور ناول کے کرداروں کے مکالموں سے براہ راست اثر لیتا ہے۔
Thursday, January 26, 2017
Or Talwar Toot Gae (Naseem Hijazi)
نسیم حجازی کا اصل نام شریف حسین تھا لیکن وہ زیادہ تر اپنے قلمی نام "نسیم حجازی" سے معروف ہیں۔ وہ تقسیم ہند سے قبل پنجاب کے ضلع گرداسپور میں 1914ء میں پیدا ہوئے۔ برطانوی راج سے آزادی کے وقت ان کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان آگیا اور باقی کی زندگی انہوں نے پاکستان میں گزاری۔ وہ مارچ 1996ء میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے ناول مسلمانوں کے عروج و زوال کی تاریخ پر مبنی ہیں جنہوں نے اردو خواں طبقے کی کئی نسلوں پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ وہ صرف تاریخی واقعات بیان کر کے نہیں رہ جاتے بلکہ حالات کی ایسی منظر کشی کرتے ہیں کہ قاری خود کو کہانی کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے اور ناول کے کرداروں کے مکالموں سے براہ راست اثر لیتا ہے۔
Muhammad Bin Qasim (Naseem Hijazi)
نسیم حجازی کا اصل نام شریف حسین تھا لیکن وہ زیادہ تر اپنے قلمی نام "نسیم حجازی" سے معروف ہیں۔ وہ تقسیم ہند سے قبل پنجاب کے ضلع گرداسپور میں 1914ء میں پیدا ہوئے۔ برطانوی راج سے آزادی کے وقت ان کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان آگیا اور باقی کی زندگی انہوں نے پاکستان میں گزاری۔ وہ مارچ 1996ء میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے ناول مسلمانوں کے عروج و زوال کی تاریخ پر مبنی ہیں جنہوں نے اردو خواں طبقے کی کئی نسلوں پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ وہ صرف تاریخی واقعات بیان کر کے نہیں رہ جاتے بلکہ حالات کی ایسی منظر کشی کرتے ہیں کہ قاری خود کو کہانی کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے اور ناول کے کرداروں کے مکالموں سے براہ راست اثر لیتا ہے۔
Andheri Raat Kay Musafir (Naseem Hijazi)
نسیم حجازی کا اصل نام شریف حسین تھا لیکن وہ زیادہ تر اپنے قلمی نام "نسیم حجازی" سے معروف ہیں۔ وہ تقسیم ہند سے قبل پنجاب کے ضلع گرداسپور میں 1914ء میں پیدا ہوئے۔ برطانوی راج سے آزادی کے وقت ان کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان آگیا اور باقی کی زندگی انہوں نے پاکستان میں گزاری۔ وہ مارچ 1996ء میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے ناول مسلمانوں کے عروج و زوال کی تاریخ پر مبنی ہیں جنہوں نے اردو خواں طبقے کی کئی نسلوں پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ وہ صرف تاریخی واقعات بیان کر کے نہیں رہ جاتے بلکہ حالات کی ایسی منظر کشی کرتے ہیں کہ قاری خود کو کہانی کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے اور ناول کے کرداروں کے مکالموں سے براہ راست اثر لیتا ہے۔
Wednesday, January 25, 2017
Adabi Khutoot-e-Ghalib (Mirza Muhammad Askari)
غالبا اردو معلے اور عود ہندی دو ہی کتابیں ایسی ہیں جو مرزا غالب کے کمال اردو نثر نگاری کی شاہد عادل کہی جا سکتی ہیں۔ مولانا حالی نے "یادگارِ غالب: میں "لطائف غیبی" ، "تیغ تیز" اور کسی ناتمام اردو قصہ کو بھی اُن کی تصانیف نثر اردو میں شمار کیا ہے۔ شروع میں مرزا اپنے خطوط کو کیجا کرنے اور شائع کرنے کے سخت خلاف تھے۔
جبکہ یہ معلوم ہو گیا کہ مرزا کے خطوط ہی اون کی نثر اردو کے بڑے کارنامے ہیں تو اب یہ دیکھنا ہے کہ انکی خطوط نویسی کس انداز کی ہے جس نے اون کو نثر نگاروں کی صف اولین میں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان سب سے آگے پہنچا دیا ہے۔
Thursday, January 19, 2017
Dalail-ul-Khairaat Arabic (Imam Abdullah Muhammad Bin Suleman)
دلائل الخيرات، أو دلائل الخيرات وشوارق الأنوار في ذكر الصلاة على النبي المختار ، كتاب من تأليف محمد بن سليمان الجزولي المتوفى سنة 870 هـ، جمع فيه صيغ في الصلاة على رسول الإسلام محمد، وهو يعدّ من أشهر الكتب في هذا المجال مما جعله محط اهتمام كثير من العلماء قديماً وحديثاً، وخصوصا الصوفية منهم، فجعلوه جزءاً من أورادهم التي يقرأونها صباحاً ومساءً. وقد بذل أيضا حكام المسلمين وأمراؤهم بهذا الكتاب وبذلوا في نسخه وتوزيعه بين البلاد، وكان آخرهم السلطان عبد الحميد. وقد قسم هذا الكتاب على سبعة أقسام، على عدد أيام الأسبوع، لكل يوم صيغ من الصلاة على النبي. وجعل الجزولي كمقدمة لهذا الكتاب دعاء بأسماء الله الحسنى وذكر لأسماء رسول الإسلام محمد بن عبد الله صلی اللہ علیہ وسلم۔
Dalail-ul-Khairaat (Imam Abdullah Muhammad Bin Suleman)
دلائل الخیرات شریف وہ عظیم کتاب ہے جو دنیا کے کونے کونے میں پڑھی جاتی ہے۔ تمام معروف سلاسل طریقت کے شیوخ خود بھی اس کا ورد کرتے ہیں اور اپنے مریدین کو بھی پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں ۔بارگاہ نبوی امیں اس وظیفہ درود و سلام کی قبولیت کا اندازا اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سرکار مدینہانے بعض خوش بختوں کو اس کتاب کی خود اجازت فرمائی۔جیسے محمد مغربی تلمسانی اور محمد اندلسی حضرت سیدی الصدیق الفلالی امی ولی اﷲہو گزرے ہیں۔ آپ کو مکمل دلائل الخیرات حفظ تھی اور فرمایا کرتے تھے کہ "ان النبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم علمہ ایاہ مناما" یعنی رسول ﷲ نے انہیں خواب میں دلائل الخیرات شریف پڑھائی تھی یہ وہ عظیم کتاب ہے کہ جس کے ذریعے لوگوں کو برکت اور نور نصیب ہوتا ہے۔ کشف الظنون میں ہے ( و ہذا الکتاب آیۃ من آیات اﷲ فی الصلاۃ علی النبی علیہ الصلاۃ والسلام ) یہ کتاب حضور نبی کریم کی بارگاہ میں درود و سلام پر مشتمل ہے اور اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے مشرق و مغرب اور خاص طور پر بلاد روم میں باقاعدگی سے پڑھی جاتی ہے۔
Wednesday, January 18, 2017
Masnavi Gulzar-e-Naseem (Mirza Fida Ali Lakhnavi)
یہ مثنوی (گلزار نسیم) محمد علی شاہ کے زمانہ میں تصنیف کی گئی۔ اس میں کلام نہیں کہ مثنوی اپنے رنگ میں لاجواب ہے اور میر حسن کی مثنوی کے بعد جو شہرت جو مقبولیت اس مثنوی کو حاصل ہوئی وہ کسی کو نصیب نہیں ہوئی۔ اختصار کی بے مثل خوبی کے علاوہ صنائع و بدائع اور صنعت مراۃ النظر نے ہر بیت کو دلہن کی طرح سج دیا ہے۔
Akhbaari Lughaat (Munshi Zia-ud-Din Ahmad)
اس کتاب میں وہ تمام الفاظ حروف تہجی کی ترتیب سے جمع کر دئیے گئے ہیں جن کا استعمال اردو اخباروں میں ہوتا ہے۔ اور آسان سلیس اور صاف اردو زبان میں ان کی شرح کی گئی ہے۔ اور آخیر میں دو ضمیموں کے ذریعہ ہندوستان کے طرز حکومت اور انگلستان کے طریقہء حکومت کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ کتاب 1915 میں لکھی گئی اور ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی اجازت سے ان کے نام سے منسوب کی گئی۔
Tuesday, January 17, 2017
Thora Sa Asman (Umera Ahmad)
"تھوڑا سا آسمان" سے ایک اقتباس: آسمان وہ عروج ہے جس کو پانے کی خواہش ہمیں ہمیشہ بے تاب رکھتی ہے۔ ہم سب کبھی نہ کبھی تھوڑا سا آسمان ضرور تلاش کرتے ہیں۔ اس تلاش میں بہت سے لوگ بہت کچھ کھو دیتے ہیں اور بعض دفعہ اس تلاش میں ہم اپنے پیروں کے نیچے موجود زمین کو ٹھوکر مار دیتے ہیں۔ پھر جب آسمان تک نہیں پہنچ پاتے تو واپس زمین پر آنے کی کوشش کرتے ہیں تب بعض دفعہ زمین ہمیں پاوں رکھنے کی جگہ نہیں دیتی۔
Monday, January 16, 2017
Brave New World (Aldous Huxley)
Brave New World is a novel written in 1931 by Aldous Huxley and published in 1932. Set in London in the year AD 2540 (632 A.F.—"After Ford"—in the book), the novel anticipates developments in reproductive technology, sleep-learning, psychological manipulation, and classical conditioning that combine profoundly to change society. Huxley answered this book with a reassessment in an essay, Brave New World Revisited (1958), and with Island (1962), his final novel.
The Great Gatsby (F. Scott Fitzgerald)
The Great Gatsby is a 1925 novel written by American author F. Scott Fitzgerald that follows a cast of characters living in the fictional town of West Egg on prosperous Long Island in the summer of 1922. The story primarily concerns the young and mysterious millionaire Jay Gatsby and his quixotic passion and obsession for the beautiful former debutante Daisy Buchanan. Considered to be Fitzgerald's magnum opus, The Great Gatsby explores themes of decadence, idealism, resistance to change, social upheaval, and excess, creating a portrait of the Jazz Age or the Roaring Twenties that has been described as a cautionary tale regarding the American Dream.
Ulysses (James Joyce)
Ulysses is a modernist novel by Irish writer James Joyce. It was first serialised in parts in the American journal The Little Review from March 1918 to December 1920, and then published in its entirety by Sylvia Beach in February 1922, in Paris. It is considered to be one of the most important works of modernist literature, and has been called "a demonstration and summation of the entire movement". According to Declan Kiberd, "Before Joyce, no writer of fiction had so foregrounded the process of thinking." (Wikipedia)
Fasaana-e-Ajaib (Mirza Rajab Ali Beg)
بقول شمس الدین احمد، ”فسانہ عجائب لکھنو میں گھر گھر پڑھا جاتا تھا اور عورتیں بچوں کو کہانی کے طور پر سنایا کرتی تھیں اور بار بار پڑھنے سے اس کے جملے اور فقرے زبانوں پر چڑھ جاتے تھے۔“
سرور 1786ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے اور1867ء کو بنارس میں وفات پائی۔ سرور کو فارسی اور اردو پر پوری پوری دسترس حاصل تھی۔ شعر و شاعری کے بڑے شوقین تھے۔ فسانہ عجائب ان کی سب سے مشہور تصنیف ہے جوایک ادبی شاہکار اور قدیم طرز انشاء کا بہترین نمونہ ہے۔ اس کی عبارت مقفٰفی اور مسجع ، طرز بیان رنگین اور دلکش ہے۔ ادبی مرصع کاری ، فنی آرائش اور علمی گہرائی کو خوب جگہ دی گئی ہے۔ اگرچہ فورٹ ولیم کالج کی سلیس نگاری نے مولانا فضلی اور مرزا رسوا کے پرتکلف انداز تحریر پر کاری ضرب لگائی تھی۔ اور اس کا ثبوت باغ و بہار کی سادہ و سلیس نثر ہے۔ تاہم پھر بھی اکثر ادباء ہٹ دھرمی کا ثبوت دیتے ہوئے قدیم طرز کے دلدادہ اور اور پرستار رہے۔ رجب علی بیگ سرور بھی اسی لکیر کو پیٹ رہے تھے۔ چنانچہ باغ و بہار کے آسان اور عام فہم اسلوب پر اس زمانے میں اعتراضات کئے جانے لگے تو انہوں نے اس کے مقابلے میں ”فسانہ عجائب“ کی صورت میں مشکل اور گراں عبارت لکھ کر ”باغ و بہار“ کی ضد پیش کی۔ اور اس زمانے میں خوب داد حاصل کی۔
Bagh-o-Bahar (Mir Aman Dehelvi)
باغ وبہار میرامن دہلوی کی داستانوی کتاب ہے جو اُنھوں نے فورٹ ولیم کالج میں جان گلکرسٹ کی فرمائش پر لکھی۔یہ حقیقتا امیر خسرو کے فارسی داستان قصہ چہار درویش کا پہلا اردو ترجمہ ہے۔ بقول سید محمد ، ” میرامن نے باغ وبہار میں ایسی سحر کاری کی ہے کہ جب تک اردو زبان زندہ ہے مقبول رہے گی اور اس کی قدر و قیمت میں مرورِ ایام کے ساتھ کوئی کمی نہ ہوگی۔“ باغ و بہار فورٹ ولیم کا لج کی دین ہے جو انگریزوں کو مقامی زبانوں سے آشنا کرنے کے لئے قائم کیا گیاتھا۔ میرامن نے باغ و بہار جان گل کرائسٹ کی فرمائش پر میر حسین عطا تحسینؔ کی نو طرز مرصع سے ترجمہ کی۔ اور اس طرح یہ داستان اردو نثر میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لئے کہ اردو نثر میں پہلی مرتبہ سلیس اور آسان عبارت کا رواج ہوا جو اِسی داستان کی وجہ سے ممکن ہوا۔ آگے چل کر غالب کی نثر نے اس کمال تک پہنچا دیا۔ اس لئے تو مولوی عبدالحق کا کہنا ہے کہ اردو نثر کی ان چند کتابوں میں باغ و بہار کو شمار کیا جاتا ہے جو ہمیشہ زندہ رہنے والی ہیں اور شوق سے پڑھی جائیں گی۔ (وکی پیڈیا)
Thursday, January 12, 2017
Anandi (Ghulam Abbas)
آنندی سے اقتباس: "بلديہ کا اجلاس زوروں پر تھا، ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور خلاف معمول ايک ممبر بھي غير حاضر نہ تھا، بلديہ کے زير بحث مسئلہ يہ تھا کہ زنان بازاري کو شہر بدر کر دياجائے، کيوں کہ ان کا وجود انسانيت، شرافت اور تہذيب کے دامن پر بد نما داغ ہے۔ بلديہ کے ايک بھاري بھر کم رکن جو ملک و قوم کے سچے خير خواہ مانے جاتے تھے نہايت فصاحت سے تقرير کر رہے تھے “ اور پھر حضرات آپ يہ بھي جانتے ہیں کہ یہ بازار شہر کے وسط میں واقع ہے چنانچہ ہر شريف آدمي کو چار وناچار اس بازار سے گزرنا پڑتا ہے، علاوہ ازيں شرفا کي پاک دامن بہو بيٹياں بھی اس بازار کی تجارتي اہميت کي وجہ سے يہاں آنے اور خريد و فروخت کرنے پر مجبور ہيں ، صاحبان جب يہ شريف زادياں ان آبرو باختہ اور نيم عرياں بيواؤں کے بناؤ سنگھار کو ديکھتي ہيں تو قدرتي طور پر ان کے دل ميں بھي آرائش و دل ربائي کي نئي نئي امنگيں اور ولولے پيدا ہوتے ہيں اور اپنے غريب شوہروں سے طرح طرح کے غازوں لوِنڈروں زرق برق ساڑيوں اور قيمتي زيوروں کي فرمائشيں کرنے لگتي ہيں نتيجہ يہ ہوتا ہے کہ ان کا پر مسرت گھر ان کا راحت کدہ ہميشہ کيلئے جہنم کا نمونہ بن جاتا ہے۔"
Khutbaat-e-Bahawalpur (Dr. M. Hamidullah)
خطبات بہاولپور دراصل مارچ 1980ءمیں جامعہ عباسیہ(اسلامیہ یونیورسٹی بھاولپور،پاکستان) کی دعوت پر یونیورسٹی میں ججز، علماءاور یونیورسٹیوں کے چانسلرز اورڈین حضرات کی زیر صدارت ڈاکٹر حمیداللہ کے مختلف علمی موضوعات پر بارہ خطبات کا مجموعہ ہے جو علمی حلقوں ، قانون دان اور دانشور طبقے کے ہاں خطبات بہاولپور کے نا م سے معروف ہے ۔ یہ خطبات 8مارچ 1980 ء سے 20 ماچ 1980ءتک مسلسل جاری رہے۔ ان خطبات کوسننے کےلیے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے اساتذہ، طلباء و طالبات کےعلاوہ شہر کے علمائے کرام اوراہل ذوق و طلب خواتین وحضرات کی ایک کثیر تعداد تشریف لاتی جن میں ملک کے دوسرے شہروں سے آنے والے مہمانانِ گرامی بھی شامل ہوتے۔ ان خطبات کاپہلا ایڈیشن اپریل 1981ءمیں شائع ہوا اور اسے بڑا قبول عا م حاصل ہوا ۔
Mazeed Himaqtain (Col. Shafiq-ur-Rahman)
اس کتاب سے ایک اقتباس۔ "دریائے سندھ عبور کرنے کا ارادہ کرر ہے تھے ۔ معلوم ہوا کہ "سید با یزید ابن یزید یزدانی" آستان بوسی کی سعادت کے متلاشی ہیں۔ جب بُلایا، تو دیکھا کہ فقط ایک آدمی تھا۔ ہم نے ازراہ تلطف اسے گلے لگا لیا اور پیار سے بھینچا۔ وہ بے ہوش ہو گیا۔ اسے فوراً باہر لے گئے، لخلخہ سُنگھایا گیا، مالش کی گئی۔ دیر کے بعد اسے ہوش آیا تو وہ نذریں جو پیش کرنے لایا تھا، لے کر رفو چکر ہوگیا۔ ہم نے اہلکاروں کو اس کے پیچھے دوڑایا کہ اگر خود نہیں آتا تو نذریں تو بھجوا دے۔ مگر اس کا کوئی پتہ نہ چلا۔ قلعے کا فوجدار ہماری سواری کے لئے ایک عجیب وغریب چوپایہ لایا، جسے ہاتھی کہتے ہیں۔ نہایت پر شوکت فیل جسم جانور ہے۔ اس کے دو دانت ہوتے ہیں، جو صرف دکھانے کے لئے ہیں۔ ناک، جس کو سونڈ کہا جاتا ہے، زمین کو چھوتی ہے۔ ہاتھی پر چڑھ کر آدمی دوسروں کے گھروں کے اندر سب کچھ دیکھ سکتا ہے۔ ہم نے سواری کا قصد کیا اور باگ ہاتھ میں لینی چاہی، وہ بولا، اس کی لگام نہیں ہوتی اور ڈرائیور علیحدہ بیٹھتا ہے۔ ہم نے ایسے بے لگام جانور پر سواری سے انکار کر دیا۔"
Wednesday, January 11, 2017
Dastan Say Afsanay Tak (Prof. Waqar Azeem)
اردو ادب کی داستان کچھ سو سالوں پر محیط ہے۔ لیکن ان چند صدیوں میں ہی تنوع سے اردو اپنی ہم عصر کئی زبانوں سے آگے نکل گئی ہے۔ داستان اردو کا ایک اہم جزو ہے۔ یہ کتاب داستان سے افسانے یعنی فکشن تک کے سفر پر مبنی ہے۔ داستان، ناول، ڈراما اور افسانہ بنیادی طور پر کہانی ہونے کے باوجود تکنیک کے اصول و قواعد کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ داستان میں تخیل اور تصور کی رنگینی، ڈرامے میں کوئی نہ کوئی کش مکش، ناول میں زندگی کی وسعت اور گہرائی اور افسانہ میں موضوع کی اکائی، یہ امتیازی اور انفرادی خصوصیات ہیں. افسانہ دوسری طرح کی کہانیوں سے اسی لحاظ سے منفرد اور ممتاز ہے کہ اس میں واضح طور پر کسی ایک چیز کی ترجمانی اور مصوری ہوتی ہے۔ ایک کردار، ایک واقعہ، ایک ذہنی کیفیت، ایک جذبہ، ایک مقصد، مختصر یہ کہ افسانے میں جو کچھ بھی ہو، ایک ہو۔ افسانے کی یہ خاصیت کہ یہ اپنے اختتام پر قاری کے ذہن پر واحد تاثر قائم کرتا ہے، وحدتِ تاثر کہلاتی ہے۔
Death Anniversary of Ibn-e-Insha
شاعر، مزاح نگار، اصلی نام شیر محمد خان تھا اور تخلص انشاء۔ آپ 15 جون 1927ء کو جالندھر کے ایک نواحی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ 1946ء میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے اور 1953ء میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ 1962ء میں نیشنل بک کونسل کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ ٹوکیو بک ڈولپمنٹ پروگرام کے وائس چیئرمین اور ایشین کو پبلی کیشن پروگرام ٹوکیو کی مرکزی مجلس ادارت کے رکن تھے۔ روزنامہ جنگ کراچی ، اور روزنامہ امروز لاہورکے ہفت روزہ ایڈیشنوں اور ہفت روزہ اخبار جہاں میں ہلکے فکاہیہ کالم لکھتے تھے۔ دو شعری مجموعے، چاند نگر اور اس بستی کے کوچے میں 1976ء شائع ہوچکے ہیں۔ 1960ء میں چینی نظموں کا منظوم اردو ترجمہ (چینی نظمیں) شائع ہوا۔
Tuesday, January 10, 2017
پی ٹی وی کے یاد گار ڈرامے
بات آتی ہے تفریح کی تو موجودہ دور میں ٹیلی وژن عام افراد کی انٹرٹینمنٹ کا سب سے بڑا ذریعہ مانا جاسکتا ہے اور اس شعبے میں سب سے زیادہ اہمیت ڈراموں کے علاوہ اور کس کی ہو سکتی ہے جس میں معاشرے کے مختلف رنگوں کی کہانیاں لوگوں کو اپنے سامنے باندھے رکھتی ہیں۔
اس معاملے میں پاکستان اپنے پڑوسی ممالک جیسے ہندوستان سے بہت آگے ہے یہاں تک کہ اس وقت بھی ایک انڈین چینل پر نئی نسل کے پاکستانی ڈراموں جیسے 'زندگی گلزار ہے'، 'مات' اور دیگر نے دھوم مچا رکھی ہے اور پاکستانی اداکار وہاں سپر اسٹار بن کر ابھرے ہیں۔
Monday, January 9, 2017
Kulliyat-e-Mir (Mir Taqi Mir)
میر تقی میر اصل نام میر محمد تقى اردو كے عظیم شاعر تھے۔ میر ان کا تخلص تھا۔ اردو شاعرى ميں مير تقى مير كا مقام بہت اونچا ہے ـ انہیں ناقدین و شعرائے متاخرین نے خدائے سخن کے خطاب سے نوازا۔ وہ اپنے زمانے كے ايك منفرد شاعر تھےـ آپ كے متعلق اردو كے عظیم الشان شاعرمرزا غالب نے لکھا ہے۔
ریختہ كے تمہی استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے ميں كوئى مير بھی تھا
Wednesday, January 4, 2017
Bachpan Ka December (Hashim Nadeem)
بچپن کا دسمبر "عبد اللہ" جیسے شاہکار کے خالق ہاشم ندیم کا ایک اور عمدہ ناول ہے۔ ان کے دوسرے ناولز میں خدا اور محبت، ایک اور محبت سہی، پری زاد، مقدس اور صلیب عشق وغیرہ شامل ہیں۔ کتابیں لکھنے کے علاوہ ہاشم ندیم ٹی وی پروڈکشن بھی کرتے ہیں۔ اردو زبان کے لئے خدمات کی وجہ سے انہیں حکومت پاکستان کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس کا اعزاز بھی دیا گیا۔
Tuesday, January 3, 2017
Kulliyat-e-Sauda (Mirza Rafi Sauda)
مرزا رفیع سودا سے کون واقف نہیں۔ اردو شاعری میں اپنا ایک منفرد مزاج رکھتے ہیں۔ ان کی شہرت ان کے قصائد اور غزلوں کے سبب ہے۔ مرزا سودا دہلی میں پیدا ہوئے اور وہیں پلے بڑھے۔ عمر کے آخری حصے میں وہ ہندوستان کے مختلف نوابوں کے درباروں سے متصل ہو گئے۔ سلطنت اودھ کی جانب سے مرزا سودا کو ملک الشعراء (یعنی شاعروں کے بادشاہ) کے خطاب سے نوازا گیا۔
Islam (Karen Armstrong)
The external history of a religious tradition often seems divorced from the raison d'etre of faith. The spiritual quest is an interior journey; it is a psychic rather than a political drama. It is preoccupied with liturgy, doctrine, contemplative disciplines and an exploration of the heart, not with the clash of current events. Religions certainly have a life outside the soul. Their leaders have to contend with the state and affairs of the world, and often relish doing so.
Monday, January 2, 2017
Dalda Anniversary Special Cook Book
Islah-e-Talafuz-o-Imla (Talib-ul-Hashmi)
یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ زندگی کے بعض اور شعبوں کی طرح ہم زبان کے بارے میں بھی بے پرواہ ہوتے جا رہے ہیں۔ بعض کوتاہ بینوں کا خیال ہے کہ لکھی ہوئی چیز اگر پڑھی جائے اور سنی ہوئی بات اگر سمجھ میں آجائے بس پھر ٹھیک ہے۔ ان عزیزوں کو اندازہ نہیں کہ زبان کے باب میں اہل مشرق کتنے حساس رہے ہیں۔ اہل مغرب اور خصوصا فرانسیسی اور اہل انگلستان بھی اپنی لسانی عصبیت سے ہرگز دست بردار ہونے کو تیار نہیں۔ اسی ضرورت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اس کتاب کی تصنیف کا ڈول ڈالا گیا ہے۔ یہ کتاب تلفظ و املا، املا کی صریحا غلط اور غلط العام صورتوں اور صحیح صورتوں، وغیرہ جیسے نکات و امور کا بخوبی احاطہ کرتی ہے۔
Sunday, January 1, 2017
Constitution of Pakistan (1973)
آئین پاکستان کو پاکستان کا دستور اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین مجریہ 1973ء بھی کہتے ہیں۔ مارشل لا کے اٹھنے کے بعد نئی حکومت کے لئے سب سے زیادہ اہم کاموں میں سے ایک ایک نئے آئین کا مسودہ تیار کرنا تھا.1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد 1972ء کو 1970ء کے انتخابات کی بنیاد پر اسمبلی بنائی گئی۔ ایک کمیٹی مختلف سیاسی جماعتوں کے کراس سیکشن سے قائم کی گئی۔ اس کمیٹی کا مقصد ملک میں ایک آئین بنانا تھا جس پر تمام سیاسی پارٹیاں متفق ہوں۔ کمیٹی کے اندر ایک اختلاف یہ تھا کہ آیا کہ ملک میں پارلیمانی اقتدار کا نظام ہونا چاہیے یا صدارتی نظام۔ اس کے علاوہ صوبائی خود مختاری کے معاملے پر مختلف خیالات تھے۔ آٹھ ماہ آئینی کمیٹی نے اپنی رپورٹ تیار کرنے میں صرف کیے، بالآخر 10 اپریل 1973ء کو اس نے آئین کے متعلق اپنی رپورٹ پیش کی۔ وفاقی اسمبلی میں اکثریت یعنی 135 مثبت ووٹوں کے ساتھ اسے منظور کر لیا گیا اور 14 اگست 1973ء کو یہ آئین پاکستان میں نافذ کر دیا گیا۔
Subscribe to:
Posts (Atom)