سید محسن نقوی ، ایک سیاست داں اور خطیب کے ساتھ ایک شاعر بھی تھے ان کا مکمل نام سید محمد عباس اور محسن تخلص تھا ، ساتھ میں نقوی بھی تخلص کے طور پر استعمال کر تے تھے ۔ وہ ایک بے باک بابصیرت اور دانشور شاعر تھے ۔ جہاں انہوں نے مختلف موضوعات اور زندگی کے مختلف پہلؤوں پر شاعری کی، وہیں ان کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ اپنی شاعری میں نبی اور آل نبی کی محبت سے سر شار نظر آتے ہیں ۔ ان کی شاعر میں آپ کو مقتل ، قتل ، مکتب ، خون ، گواہی ، کربلا، ریت ، فرات، پیاس ، وفا ، اشک ، صحرا ، دشت ، لہو ، عہد قبیلہ ، نسل ، چر اغ اور خیمہ جیسے الفاظ ملتے ہیں جن کاتعلق کسی نہ کسی طریقے سے رثائی شاعر ی ہے ۔ اس شعری مجموعہ میں نظمیں اور غزلیں ہیں ۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے شاعری میں ہمیشہ نئی جہت تلاش کی اور اس میں بھی ایک ہی روش کو نہیں اپنا یا بلکہ اپنے ہر شعری مجموعہ میں وہ ایک نئے انداز میں نظر آتے ہیں ۔ اس مجموعہ کے متعلق وہ خود لکھتے ہیں ’’ طلوع اشک کی شاعری اپنے عہد میں بڑھتی ہوئی نفرتوں کے خلاف انسانی سانسوں کے ریشم سے بنے ہوئے ان نازک جذبوں اوردائمی رشتوں کا ایک دھیما سا احتجاج ہے جن کی پہچان کا واحد حوالہ محبت ہے۔‘‘ مزید لکھتے ہیں، ’’طلوع اشک میں نہ تو آپ کو عملی جدو جہد سے محروم کوئی دعویٰ نظر آئے گا اور نہ ہی کوئی بے مقصد ہنگامہ آرائی ۔ الغرض شاعری کا یہ مجموعہ فکر و نظر کی اور فن کی باریکی کی دعوت دیتا ہے۔
No comments:
Post a Comment