"اپنے دکھ مجھے دے دو" راجند ر سنگھ بیدی کے نو افسانوں کا مجموعہ ہے۔ جس میں "لاجونتی" جیسا شاہکار افسانہ بھی شامل ہے اور جوگن،ببل، لمبی لڑکی، ٹرمینس سے پرے، حجام الہ آباد کے، دیوالہ، یوکلپٹس اور اپنے دکھ مجھے دے دو جیسے افسانے شامل ہیں۔ راجندر سنگھ بیدی کی زبان میں اکھڑ پن اور کھردرا پن موجود ہے جس کی وجہ ان کی پنجابی زبان سے مانوسیت کہا جا سکتا ہے۔لیکن جب وہ یہی پنجابی زبان اپنے کرداروں سے ادا کراتے ہیں تب ان کا یہی نقص ایک امتیازی وصف بن کر ابھر تا ہے کیوں کہ ان کی نثر میں غضب کی تہہ داری اور ما ورائیت موجود ہوتی ہے۔آل احمد سرور، بیدی کے اولین مداحوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ بیدی کا اسلوب در اصل اشاریت اور رموزیت کا حامل ہے۔ بیدی کبھی بھی کوئی بات سپاٹ نثر میں نہیں کہتے، بلکہ ان کا اسلوب تخلیقی ہے۔ دیکھئے کس طرح وہ اپنی نثر کو مقامی بولی کے ساتھ خوش اطوار بنا دیتے ہیں۔ "اندو کچھ دیر چپ رہی اور پھر اپنا منہ پرے کرتی ہوئی بولی-" اپنی لاج- اپنی خوشی- اس وقت تم بھی کہہ دیتے– اپنے سکھ مجھے دے دو – تو میں– " اور اندو کا گلا رندھ گیا۔ اور کچھ دیر بعد وہ بولی–" اب تو میرے پاس کچھ نہیں رہا۔ " بیدی کی افسانہ نگاری کی اہمیت کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ منٹو نے انہیں ایک بار کہا تھا کہ، "تمہاری مصیبت یہ ہیکہ تم سوچتے بہت زیادہ ہو، لکھنے سے پہلے سوچتے ہو ، لکھتے وقت سوچتے ہو اور لکھنے کے بعد سوچتے ہو۔"
No comments:
Post a Comment