Wednesday, December 20, 2017
Hansmukh Shahzad (Saeed Lakht)
"ہنس مکھ شہزادہ" پہلی مرتبہ 1965ء میں شائع کی گئی جس میں سعید لخت کی لکھی گئی مختلف کہانیوں کو جمع کیا گیا ہے۔ سعید لخت بچوں کے ادب کا ایک بڑا نام ہے۔ چار سال کی عمر میں ہی ایک ہاتھ سے لکھا رسالہ سکول کے بچوں میں تقسیم کرنا شروع کر دیا۔ بعد ازاں بچوں کے سب سے مشہور رسالے "تعلیم و تربیت" کے مدیر رہے اور عرصہء دراز تک اپنی ذمہ داریوں کو نبھایا۔
Nirala Chorr (Saeed Lakht)
"نرالا چور" پہلی مرتبہ 1968ء میں شائع کی گئی جس میں سعید لخت کی لکھی گئی مختلف کہانیوں کو جمع کیا گیا ہے۔ سعید لخت بچوں کے ادب کا ایک بڑا نام ہے۔ چار سال کی عمر میں ہی ایک ہاتھ سے لکھا رسالہ سکول کے بچوں میں تقسیم کرنا شروع کر دیا۔ بعد ازاں بچوں کے سب سے مشہور رسالے "تعلیم و تربیت" کے مدیر رہے اور عرصہء دراز تک اپنی ذمہ داریوں کو نبھایا۔
Flight of the Falcon (Syed Sajad Haider)
Syed Sajjad Haider is a veteran of 1965 war. As he clearly writes that when confronted by fairytales, I am compelled to tell the whole truth and not a monosyllable less. I have been prompted to say this by certain observations that were made on my version of history which I feel need to be addressed. It would be prudent to mention that I went ahead and wrote this book despite the opinion of some of my peers that raw truth, even if it is backed by evidence and corroborated by impeccable sources, will not change opinions, let alone demolish myths or half-truth that have endured for decades.
Monday, December 18, 2017
Paanch Moti (Saeed Lakht)
"پانچ موتی" پہلی مرتبہ 1947ء میں شائع کی گئی جس میں سعید لخت کی لکھی گئی مختلف کہانیوں کو جمع کیا گیا ہے۔ سعید لخت بچوں کے ادب کا ایک بڑا نام ہے۔ چار سال کی عمر میں ہی ایک ہاتھ سے لکھا رسالہ سکول کے بچوں میں تقسیم کرنا شروع کر دیا۔ بعد ازاں بچوں کے سب سے مشہور رسالے "تعلیم و تربیت" کے مدیر رہے اور عرصہء دراز تک اپنی ذمہ داریوں کو نبھایا۔
Hafiz Jee (Saeed Lakht)
سعید لخت بچوں کے ادب کا ایک بڑا نام ہے۔ چار سال کی عمر میں ہی ایک ہاتھ سے لکھا رسالہ سکول کے بچوں میں تقسیم کرنا شروع کر دیا۔ بعد ازاں بچوں کے سب سے مشہور رسالے "تعلیم و تربیت" کے مدیر رہے اور عرصہء دراز تک اپنی ذمہ داریوں کو نبھایا۔ "حافظ جی" ان کی مختلف کہانیوں کا ایک مجموعہ ہے جو ناشر کے مطابق 10 سال سے 100 سال تک کے بچوں کے لئے لکھا گیا ہے۔
Thursday, October 26, 2017
Hindustan Kee Qadeem Islami Darsgahain (Abu al-Hasnaat Nadvi)
ہندوستان کی اسلامی تاریخ جن کثیر و متنوع اجزا پر مشتمل ہے ان میں تعلیم کا حصہ خاص طور پر عظمت و اہمیت رکھتا ہے۔ بارہویں صدی ہجری کا ہندوستان پانچویں صدی ہجری کے ہندوستان سے جس طرح تمدنی، معاشرتی اور سیاسی حالات میں مختلف ہے بعینہ وہ اپنی دماغی و علمی کیفیات میں بھی اس سے علانیہ جداگانہ ہے۔ یہ اختلاف اور یہ تغیر کیوںکر اور کس طرح پیدا ہوا؟ اور اس کی تدریجی و ارتقائی رفتار کیا رہی؟ اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں اور نہ اس کتاب ہی میں اس پر بحث کی گئی ہے البتہ اس کے متعدد اسباب میں سے ایک سبب تعلیم اور اسکی توسیع و اشاعت سے متعلق تاریخی معلومات کا ایک سرسری خاکہ اس میں کھینچا گیا ہے اور اسی مبحث کے متعدد پہلووں اس میں نمایاں بیان کیا گیا ہے۔
Friday, October 20, 2017
Hayat-al-Haywan (Allama Kamal-ud-Din Dameeri)
"حیات الحیوان" میں 1069 ناموں کے تحت جانوروں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان میں سے جن جانوروں کے حلیہ اور تفصیل کا ذکر ہے ان کی تعداد 731 بتائی جاتی ہے۔ لیکن چونکہ بسا اوقات مختلف جانوروں کو ایک ہی نام دیا گیا ہے اور متعدد جگہوں پر اس کے برعکس ایک جانور مختلف ناموں سے ذکر کیا گیا ہے، اس لئے کتاب میں مذکورہ حیوانات کی اصل تعداد متعین کرنا خاصا دشوار ہے۔ اس کے علاوہ علامہ دمیری نے خلفا کی تاریخ میں 69 خلفاء کا تذکرہ بھی کیا ہے۔
Thursday, October 19, 2017
Mukhtasar Urdu Naveesi (Noor Ahmad)
حکومت پاکستان نے آئینی تقاضوں کے مطابق اردو کو 1988ء تک بطور دفتری زبان رائج کرنے کا عہد کر رکھا ہے (جس کے لئے احکامات جاری ہونے کے باوجود اب تک عملی اقدامات کا فقدان ہے)۔ دفاتر میں اردو کے نفاذ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تربیت یافتہ عملے کی کمی بیان کی جاتی ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے مقتدرہ قومی زبان اور صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے اردو مختصر نویسی اور ٹائپ کاری کے متعدد تربیتی مراکز قائم کئے ہیں۔ یہ کتاب ان مراکز میں تربیت پانے والے طلباء کی سہولت کے ہیش نظر لکھی گئی ہے۔ امید ہے اردو مختصر نویسی سیکھنے کے شائق دوسرے طلباء بھی اس کتاب کو کارآمد اور مفید پائیں گے۔
Tuesday, October 17, 2017
Kashf-al-Mahjoob (Syed Ali Hijvairi Data Ganj Bakhsh)
کشف المحجوب کے زندہ و جاوید ہونے کی ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ اس زمانہ میں جبکہ لوگوں کا رجحان مادہ پرستی کی طرف ہے، اپنے اور بیگانے آج بھی اس کتاب کی تحقیق اور اس کی معیاری طباعت میں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں کوشاں ہیں۔ اس کتاب کے حوالے سے از خود کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ حضرت محبوب الہی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ "جس کا کوئی مرشد نہ ہو اس کتاب کے مطالعہ کی برکت سے مرشد مل جائے گا"۔
فرہنگ آصفیہ - کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن
اردو کا انمول خزانہ، اب سب کی پہنچ میں
ظفر سید - 17 اکتوبر 2017
اردو کی معروف ترین لغت فرہنگِ آصفیہ کا ایک نیا تصحیح شدہ ایڈیشن شائع ہو گیا ہے جسے اردو دان طبقوں نے لغت نویسی کے میدان میں سنگِ میل قرار دیا ہے۔ فرہنگِ آصفیہ صرف لغت ہی نہیں ہے، بلکہ اسے اردو تہذیب کا انسائیکلوپیڈیا قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ بعد میں آنے والی تمام اردو لغات ایک طرح سے فرہنگِ آصفیہ ہی کی توسیع یا تلخیص ہیں۔ اب اس عظیم الشان لغت کا جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن شائع ہوا ہے جسے یاسر جواد اور رفاقت راضی نے بڑی دقتِ نظر سے مرتب کیا ہے۔ انھوں نے اندراجات اور تشریحات سمیت 20 لاکھ الفاظ پر مبنی اس ضخیم لغت کو شائع کروا کر وہ کام سرانجام دیا ہے جو بڑے بڑے اداروں سے نہ ہو سکا۔
Friday, October 13, 2017
Patras Kay Mazaameen (Patras Bukhari)
مضامینِ پطرس سب سے پہلے 1930ء میں شائع ہوئے۔ مضامین پطرس گیارہ مزاحیہ مضامین پر مشتمل ہے۔ پطرس نے کتاب کی ابتداء میں اسے اپنے استاد پروفیسر محمد سعید کے نام انتساب کیا ہے جنہوں نے اس کتاب پر نظر ثانی کی اور اسے غلطیوں سے پاک کیا۔ ایک سچے عالم اور تخلیق کار کی پہلی نشاندہی یہی ہے کہ وہ انکسار اور عاجزی کو اپنا وطیرہ بنائے رکھتا ہے۔ پطرس بڑی فراخ دلی سے اپنی کمزریوں کا اعتراف کرکے ایک عظیم انسان ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ انتساب کے بعد دیباچے سے مزاح کا باقاعدہ آغاز ہوجاتا ہے۔ اپنے دلچسپ دیباچے میں انھوں نے اختصار، حقیقت اور طنز و مزاح سبھی کچھ سمو دیا ہے۔ دیباچے میں پطرس کڑوی گولی شکر میں لپیٹ کر پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں اور دیباچے میں ہی خود اپنی کتاب اور اپنی ذات کو مزاح کے لئے پیش کردیتے ہیں۔
Tuesday, September 12, 2017
Memoirs of Jahangir (Jahangir Nama)
The Jahangirnama — the personal memoirs of Jahangir, fourth Mughal emperor of India—is a work of intensely alert observation and probing intelligence. Jahangir's great-grandfather, Babur, had written the Bahunicvna, the first true autobiography in the Islamic world, which described frankly and with immense insight the political turmoil, actions, and personalities that had brought the Mughals from Central Asia into India.
Tuesday, May 16, 2017
Thursday, March 23, 2017
Lughat-e-Matrookaat-e-Zuban-e-Urdu (Dr. Khalid Hassan)
متروک الفاظوں سے مراد ایسے الفاظ ہوتے ہیں جو بتدریج اپنی کثافت اور پیچیدگی یا دیگر عوامل کے سبب بول چال سے غائب ہوتے جاتے ہیں اور نسبتاً آسان اور سلیس الفاظ ان کی جگہ لیتے جاتے ہیں۔ مگر محققوں اور ناقدوں کے لئے بالخصوص علم بشر ، علم لسان، مذہب اور علم انکشاف کے ماہرین کے ہاں ان کی اہمیت مسلم ہے۔ اس لغت میں قریباً 4000 الفاظ، جو کہ اردو سے متروک ہو چکے ہیں، اپنی تفصیل کے ساتھ موجود ہیں۔
Tuesday, February 14, 2017
America Ray America (Tariq Ismail Sagar)
طارق اسماعیل ساگر پاکستان کے مشہور و معروف جاسوسی ناول نگار ہیں۔ جاسوسی ناولز کے علاوہ انہوں نے مختلف دیگر شعبوں میں بھی اپنی تحریر کا فن دکھایا ہے۔ طارق اسماعیل ساگر کی نہایت مشہور کتابوں میں "افغانستان پر کیا گزری"، "اے راہِ حق کے شہیدو"، "" شامل ہیں۔
Thursday, February 9, 2017
Salam-e-Raza Kee Maqbooliyat (Maulana Abdul Mobeen Naumani)
مجدد اسلام امام احمد رضا تو محض شاعر نہ تھے بلکہ سچے عاشق رسول تھے۔ آپ نے صرف یہی نہیں کہ اپنے نعتیہ اشعار میں جابجا دردو و سلام کا ہدیہ پیش کیا ہے بلکہ درود و سلام پر مستقل اور علیحدہ علیحدہ دو قصیدے بھی کہے ہیں۔ درودشریف پر قصیدے کے اشعار 59 ہیں جن میں سات مطلع ہیں۔ ہر شعر کا پہلا مصرع ذو قافیتین ہے یعنی ہر مصرعے میں دو قافیے ہیں۔ اور ہر قافیے میں حروف تہجی کی ترتیب کا بھی التزام ہے۔
Monday, February 6, 2017
Afghanistan Par Kiya Guzri (Tariq Ismail Sagar)
طارق اسماعیل ساگر پاکستان کے مشہور و معروف جاسوسی ناول نگار ہیں۔ جاسوسی ناولز کے علاوہ انہوں نے مختلف دیگر شعبوں میں بھی اپنی تحریر کا فن دکھایا ہے۔ اس کے علاوہ طارق اسماعیل ساگر کی نہایت مشہور کتابوں میں ""، ""، "" شامل ہیں۔
اس کتاب میں افغانستان کی وہ المناک داستان بیان کی گئی ہے جو اس پر امریکہ کے حملے کے بعد لکھی گئی۔
Ay Raah-e-Haq Kay Shaheedo (Tariq Ismail Sagar)
طارق اسماعیل ساگر پاکستان کے مشہور و معروف جاسوسی ناول نگار ہیں۔ جاسوسی ناولز کے علاوہ انہوں نے مختلف دیگر شعبوں میں بھی اپنی تحریر کا فن دکھایا ہے۔ اس کے علاوہ طارق اسماعیل ساگر کی نہایت مشہور کتابوں میں "آخری گناہ کی مہلت"، "کمانڈو"، "جاسوس کیسے بنتے ہیں" شامل ہیں۔
Aadam Khor Kaa Taaqub (Tariq Ismail Sagar)
طارق اسماعیل ساگر پاکستان کے مشہور و معروف جاسوسی ناول نگار ہیں۔ جاسوسی ناولز کے علاوہ انہوں نے مختلف دیگر شعبوں میں بھی اپنی تحریر کا فن دکھایا ہے۔ "آدم خور کا تعاقب" دنیا بھر کی شکاریات کے موضوع پر لکھی جانے والی بہترین کہانیوں کا انتخاب ہے۔
اس کے علاوہ طارق اسماعیل ساگر کی نہایت مشہور کتابوں میں "میں ایک جاسوس تھا"، "کمانڈو"، "جاسوس کیسے بنتے ہیں" شامل ہیں۔
Masnavi Maulvi Ma'anvi (Maulana Jalal-ud-Din Rumi) - Vol: 06
مثنوی یہی کتاب ہے جس نے مولانا کے نام کو آج تک زندہ رکھا ہوا ہے اور جس کی شہرت اور مقبولیت نے ایران کی تمام تصانیف کو دبا لیا ہے۔ اس کے اشعار کی مجموعی تعداد ، جیسا کہ کشف الظنون میں ہے 2666 ہے ۔ مشہور یہ ہے کہ مولانا نے چھٹا دفتر ناتمام چھوڑ تھا اور فرمایا تھا کہ
باقی ایں گفتہ آید بی گماں
در دل ہر کس کہ باشد نور جاں
اس پیشن گوئی کے مصداق بننے کے لیے اکثروں نے کوششیں کیں اور مولانا سے جو حصہ رہ گیا تھا اسے پورا کیا ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مولانا نے بیماری سے نجات پا کر خود اس حصے کو پورا کیا تھا اور ساتواں دفتر لکھا تھا جس کا مطلع یہ ہے۔
اے ضیا الحق حسام الدیں سعید
دولتت پائندہ عمرت بر مزید
(وکی پیڈیا)
Masnavi Maulvi Ma'anvi (Maulana Jalal-ud-Din Rumi) - Vol: 05
مثنوی یہی کتاب ہے جس نے مولانا کے نام کو آج تک زندہ رکھا ہوا ہے اور جس کی شہرت اور مقبولیت نے ایران کی تمام تصانیف کو دبا لیا ہے۔ اس کے اشعار کی مجموعی تعداد ، جیسا کہ کشف الظنون میں ہے 2666 ہے ۔ مشہور یہ ہے کہ مولانا نے چھٹا دفتر ناتمام چھوڑ تھا اور فرمایا تھا کہ
باقی ایں گفتہ آید بی گماں
در دل ہر کس کہ باشد نور جاں
اس پیشن گوئی کے مصداق بننے کے لیے اکثروں نے کوششیں کیں اور مولانا سے جو حصہ رہ گیا تھا اسے پورا کیا ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مولانا نے بیماری سے نجات پا کر خود اس حصے کو پورا کیا تھا اور ساتواں دفتر لکھا تھا جس کا مطلع یہ ہے۔
اے ضیا الحق حسام الدیں سعید
دولتت پائندہ عمرت بر مزید
(وکی پیڈیا)
Thursday, February 2, 2017
Masnavi Maulvi Ma'anvi (Maulana Jalal-ud-Din Rumi) - Vol: 04
مثنوی یہی کتاب ہے جس نے مولانا کے نام کو آج تک زندہ رکھا ہوا ہے اور جس کی شہرت اور مقبولیت نے ایران کی تمام تصانیف کو دبا لیا ہے۔ اس کے اشعار کی مجموعی تعداد ، جیسا کہ کشف الظنون میں ہے 2666 ہے ۔ مشہور یہ ہے کہ مولانا نے چھٹا دفتر ناتمام چھوڑ تھا اور فرمایا تھا کہ
باقی ایں گفتہ آید بی گماں
در دل ہر کس کہ باشد نور جاں
اس پیشن گوئی کے مصداق بننے کے لیے اکثروں نے کوششیں کیں اور مولانا سے جو حصہ رہ گیا تھا اسے پورا کیا ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مولانا نے بیماری سے نجات پا کر خود اس حصے کو پورا کیا تھا اور ساتواں دفتر لکھا تھا جس کا مطلع یہ ہے۔
اے ضیا الحق حسام الدیں سعید
دولتت پائندہ عمرت بر مزید
(وکی پیڈیا)
Masnavi Maulvi Ma'anvi (Maulana Jalal-ud-Din Rumi) - Vol: 03
مثنوی یہی کتاب ہے جس نے مولانا کے نام کو آج تک زندہ رکھا ہوا ہے اور جس کی شہرت اور مقبولیت نے ایران کی تمام تصانیف کو دبا لیا ہے۔ اس کے اشعار کی مجموعی تعداد ، جیسا کہ کشف الظنون میں ہے 2666 ہے ۔ مشہور یہ ہے کہ مولانا نے چھٹا دفتر ناتمام چھوڑ تھا اور فرمایا تھا کہ
باقی ایں گفتہ آید بی گماں
در دل ہر کس کہ باشد نور جاں
اس پیشن گوئی کے مصداق بننے کے لیے اکثروں نے کوششیں کیں اور مولانا سے جو حصہ رہ گیا تھا اسے پورا کیا ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مولانا نے بیماری سے نجات پا کر خود اس حصے کو پورا کیا تھا اور ساتواں دفتر لکھا تھا جس کا مطلع یہ ہے۔
اے ضیا الحق حسام الدیں سعید
دولتت پائندہ عمرت بر مزید
(وکی پیڈیا)
Wednesday, February 1, 2017
Masnavi Maulvi Ma'anvi (Maulana Jalal-ud-Din Rumi) - Vol: 02
مثنوی یہی کتاب ہے جس نے مولانا کے نام کو آج تک زندہ رکھا ہوا ہے اور جس کی شہرت اور مقبولیت نے ایران کی تمام تصانیف کو دبا لیا ہے۔ اس کے اشعار کی مجموعی تعداد ، جیسا کہ کشف الظنون میں ہے 2666 ہے ۔ مشہور یہ ہے کہ مولانا نے چھٹا دفتر ناتمام چھوڑ تھا اور فرمایا تھا کہ
باقی ایں گفتہ آید بی گماں
در دل ہر کس کہ باشد نور جاں
اس پیشن گوئی کے مصداق بننے کے لیے اکثروں نے کوششیں کیں اور مولانا سے جو حصہ رہ گیا تھا اسے پورا کیا ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مولانا نے بیماری سے نجات پا کر خود اس حصے کو پورا کیا تھا اور ساتواں دفتر لکھا تھا جس کا مطلع یہ ہے۔
اے ضیا الحق حسام الدیں سعید
دولتت پائندہ عمرت بر مزید
(وکی پیڈیا)
Masnavi Maulvi Ma'anvi (Maulana Jalal-ud-Din Rumi) - Vol: 01
مثنوی یہی کتاب ہے جس نے مولانا کے نام کو آج تک زندہ رکھا ہوا ہے اور جس کی شہرت اور مقبولیت نے ایران کی تمام تصانیف کو دبا لیا ہے۔ اس کے اشعار کی مجموعی تعداد ، جیسا کہ کشف الظنون میں ہے 2666 ہے ۔ مشہور یہ ہے کہ مولانا نے چھٹا دفتر ناتمام چھوڑ تھا اور فرمایا تھا کہ
باقی ایں گفتہ آید بی گماں
در دل ہر کس کہ باشد نور جاں
اس پیشن گوئی کے مصداق بننے کے لیے اکثروں نے کوششیں کیں اور مولانا سے جو حصہ رہ گیا تھا اسے پورا کیا ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مولانا نے بیماری سے نجات پا کر خود اس حصے کو پورا کیا تھا اور ساتواں دفتر لکھا تھا جس کا مطلع یہ ہے۔
اے ضیا الحق حسام الدیں سعید
دولتت پائندہ عمرت بر مزید
(وکی پیڈیا)
Saturday, January 28, 2017
Sufaid Jazeera (Naseem Hijazi)
نسیم حجازی کا اصل نام شریف حسین تھا لیکن وہ زیادہ تر اپنے قلمی نام "نسیم حجازی" سے معروف ہیں۔ وہ تقسیم ہند سے قبل پنجاب کے ضلع گرداسپور میں 1914ء میں پیدا ہوئے۔ برطانوی راج سے آزادی کے وقت ان کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان آگیا اور باقی کی زندگی انہوں نے پاکستان میں گزاری۔ وہ مارچ 1996ء میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے ناول مسلمانوں کے عروج و زوال کی تاریخ پر مبنی ہیں جنہوں نے اردو خواں طبقے کی کئی نسلوں پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ وہ صرف تاریخی واقعات بیان کر کے نہیں رہ جاتے بلکہ حالات کی ایسی منظر کشی کرتے ہیں کہ قاری خود کو کہانی کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے اور ناول کے کرداروں کے مکالموں سے براہ راست اثر لیتا ہے۔
Qaiser-o-Kisraa (Naseem Hijazi)
نسیم حجازی کا اصل نام شریف حسین تھا لیکن وہ زیادہ تر اپنے قلمی نام "نسیم حجازی" سے معروف ہیں۔ وہ تقسیم ہند سے قبل پنجاب کے ضلع گرداسپور میں 1914ء میں پیدا ہوئے۔ برطانوی راج سے آزادی کے وقت ان کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان آگیا اور باقی کی زندگی انہوں نے پاکستان میں گزاری۔ وہ مارچ 1996ء میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے ناول مسلمانوں کے عروج و زوال کی تاریخ پر مبنی ہیں جنہوں نے اردو خواں طبقے کی کئی نسلوں پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ وہ صرف تاریخی واقعات بیان کر کے نہیں رہ جاتے بلکہ حالات کی ایسی منظر کشی کرتے ہیں کہ قاری خود کو کہانی کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے اور ناول کے کرداروں کے مکالموں سے براہ راست اثر لیتا ہے۔
Kaleesa Or Aag (Naseem Hijazi)
نسیم حجازی کا اصل نام شریف حسین تھا لیکن وہ زیادہ تر اپنے قلمی نام "نسیم حجازی" سے معروف ہیں۔ وہ تقسیم ہند سے قبل پنجاب کے ضلع گرداسپور میں 1914ء میں پیدا ہوئے۔ برطانوی راج سے آزادی کے وقت ان کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان آگیا اور باقی کی زندگی انہوں نے پاکستان میں گزاری۔ وہ مارچ 1996ء میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے ناول مسلمانوں کے عروج و زوال کی تاریخ پر مبنی ہیں جنہوں نے اردو خواں طبقے کی کئی نسلوں پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ وہ صرف تاریخی واقعات بیان کر کے نہیں رہ جاتے بلکہ حالات کی ایسی منظر کشی کرتے ہیں کہ قاری خود کو کہانی کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے اور ناول کے کرداروں کے مکالموں سے براہ راست اثر لیتا ہے۔
Poras Kay Hathi (Naseem Hijazi)
نسیم حجازی کا اصل نام شریف حسین تھا لیکن وہ زیادہ تر اپنے قلمی نام "نسیم حجازی" سے معروف ہیں۔ وہ تقسیم ہند سے قبل پنجاب کے ضلع گرداسپور میں 1914ء میں پیدا ہوئے۔ برطانوی راج سے آزادی کے وقت ان کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان آگیا اور باقی کی زندگی انہوں نے پاکستان میں گزاری۔ وہ مارچ 1996ء میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے ناول مسلمانوں کے عروج و زوال کی تاریخ پر مبنی ہیں جنہوں نے اردو خواں طبقے کی کئی نسلوں پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ وہ صرف تاریخی واقعات بیان کر کے نہیں رہ جاتے بلکہ حالات کی ایسی منظر کشی کرتے ہیں کہ قاری خود کو کہانی کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے اور ناول کے کرداروں کے مکالموں سے براہ راست اثر لیتا ہے۔
Pardesi Darakht (Naseem Hijazi)
نسیم حجازی کا اصل نام شریف حسین تھا لیکن وہ زیادہ تر اپنے قلمی نام "نسیم حجازی" سے معروف ہیں۔ وہ تقسیم ہند سے قبل پنجاب کے ضلع گرداسپور میں 1914ء میں پیدا ہوئے۔ برطانوی راج سے آزادی کے وقت ان کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان آگیا اور باقی کی زندگی انہوں نے پاکستان میں گزاری۔ وہ مارچ 1996ء میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے ناول مسلمانوں کے عروج و زوال کی تاریخ پر مبنی ہیں جنہوں نے اردو خواں طبقے کی کئی نسلوں پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ وہ صرف تاریخی واقعات بیان کر کے نہیں رہ جاتے بلکہ حالات کی ایسی منظر کشی کرتے ہیں کہ قاری خود کو کہانی کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے اور ناول کے کرداروں کے مکالموں سے براہ راست اثر لیتا ہے۔
Thursday, January 26, 2017
Or Talwar Toot Gae (Naseem Hijazi)
نسیم حجازی کا اصل نام شریف حسین تھا لیکن وہ زیادہ تر اپنے قلمی نام "نسیم حجازی" سے معروف ہیں۔ وہ تقسیم ہند سے قبل پنجاب کے ضلع گرداسپور میں 1914ء میں پیدا ہوئے۔ برطانوی راج سے آزادی کے وقت ان کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان آگیا اور باقی کی زندگی انہوں نے پاکستان میں گزاری۔ وہ مارچ 1996ء میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے ناول مسلمانوں کے عروج و زوال کی تاریخ پر مبنی ہیں جنہوں نے اردو خواں طبقے کی کئی نسلوں پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ وہ صرف تاریخی واقعات بیان کر کے نہیں رہ جاتے بلکہ حالات کی ایسی منظر کشی کرتے ہیں کہ قاری خود کو کہانی کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے اور ناول کے کرداروں کے مکالموں سے براہ راست اثر لیتا ہے۔
Muhammad Bin Qasim (Naseem Hijazi)
نسیم حجازی کا اصل نام شریف حسین تھا لیکن وہ زیادہ تر اپنے قلمی نام "نسیم حجازی" سے معروف ہیں۔ وہ تقسیم ہند سے قبل پنجاب کے ضلع گرداسپور میں 1914ء میں پیدا ہوئے۔ برطانوی راج سے آزادی کے وقت ان کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان آگیا اور باقی کی زندگی انہوں نے پاکستان میں گزاری۔ وہ مارچ 1996ء میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے ناول مسلمانوں کے عروج و زوال کی تاریخ پر مبنی ہیں جنہوں نے اردو خواں طبقے کی کئی نسلوں پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ وہ صرف تاریخی واقعات بیان کر کے نہیں رہ جاتے بلکہ حالات کی ایسی منظر کشی کرتے ہیں کہ قاری خود کو کہانی کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے اور ناول کے کرداروں کے مکالموں سے براہ راست اثر لیتا ہے۔
Andheri Raat Kay Musafir (Naseem Hijazi)
نسیم حجازی کا اصل نام شریف حسین تھا لیکن وہ زیادہ تر اپنے قلمی نام "نسیم حجازی" سے معروف ہیں۔ وہ تقسیم ہند سے قبل پنجاب کے ضلع گرداسپور میں 1914ء میں پیدا ہوئے۔ برطانوی راج سے آزادی کے وقت ان کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان آگیا اور باقی کی زندگی انہوں نے پاکستان میں گزاری۔ وہ مارچ 1996ء میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے ناول مسلمانوں کے عروج و زوال کی تاریخ پر مبنی ہیں جنہوں نے اردو خواں طبقے کی کئی نسلوں پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ وہ صرف تاریخی واقعات بیان کر کے نہیں رہ جاتے بلکہ حالات کی ایسی منظر کشی کرتے ہیں کہ قاری خود کو کہانی کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے اور ناول کے کرداروں کے مکالموں سے براہ راست اثر لیتا ہے۔
Wednesday, January 25, 2017
Adabi Khutoot-e-Ghalib (Mirza Muhammad Askari)
غالبا اردو معلے اور عود ہندی دو ہی کتابیں ایسی ہیں جو مرزا غالب کے کمال اردو نثر نگاری کی شاہد عادل کہی جا سکتی ہیں۔ مولانا حالی نے "یادگارِ غالب: میں "لطائف غیبی" ، "تیغ تیز" اور کسی ناتمام اردو قصہ کو بھی اُن کی تصانیف نثر اردو میں شمار کیا ہے۔ شروع میں مرزا اپنے خطوط کو کیجا کرنے اور شائع کرنے کے سخت خلاف تھے۔
جبکہ یہ معلوم ہو گیا کہ مرزا کے خطوط ہی اون کی نثر اردو کے بڑے کارنامے ہیں تو اب یہ دیکھنا ہے کہ انکی خطوط نویسی کس انداز کی ہے جس نے اون کو نثر نگاروں کی صف اولین میں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان سب سے آگے پہنچا دیا ہے۔
Thursday, January 19, 2017
Dalail-ul-Khairaat Arabic (Imam Abdullah Muhammad Bin Suleman)
دلائل الخيرات، أو دلائل الخيرات وشوارق الأنوار في ذكر الصلاة على النبي المختار ، كتاب من تأليف محمد بن سليمان الجزولي المتوفى سنة 870 هـ، جمع فيه صيغ في الصلاة على رسول الإسلام محمد، وهو يعدّ من أشهر الكتب في هذا المجال مما جعله محط اهتمام كثير من العلماء قديماً وحديثاً، وخصوصا الصوفية منهم، فجعلوه جزءاً من أورادهم التي يقرأونها صباحاً ومساءً. وقد بذل أيضا حكام المسلمين وأمراؤهم بهذا الكتاب وبذلوا في نسخه وتوزيعه بين البلاد، وكان آخرهم السلطان عبد الحميد. وقد قسم هذا الكتاب على سبعة أقسام، على عدد أيام الأسبوع، لكل يوم صيغ من الصلاة على النبي. وجعل الجزولي كمقدمة لهذا الكتاب دعاء بأسماء الله الحسنى وذكر لأسماء رسول الإسلام محمد بن عبد الله صلی اللہ علیہ وسلم۔
Dalail-ul-Khairaat (Imam Abdullah Muhammad Bin Suleman)
دلائل الخیرات شریف وہ عظیم کتاب ہے جو دنیا کے کونے کونے میں پڑھی جاتی ہے۔ تمام معروف سلاسل طریقت کے شیوخ خود بھی اس کا ورد کرتے ہیں اور اپنے مریدین کو بھی پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں ۔بارگاہ نبوی امیں اس وظیفہ درود و سلام کی قبولیت کا اندازا اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سرکار مدینہانے بعض خوش بختوں کو اس کتاب کی خود اجازت فرمائی۔جیسے محمد مغربی تلمسانی اور محمد اندلسی حضرت سیدی الصدیق الفلالی امی ولی اﷲہو گزرے ہیں۔ آپ کو مکمل دلائل الخیرات حفظ تھی اور فرمایا کرتے تھے کہ "ان النبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم علمہ ایاہ مناما" یعنی رسول ﷲ نے انہیں خواب میں دلائل الخیرات شریف پڑھائی تھی یہ وہ عظیم کتاب ہے کہ جس کے ذریعے لوگوں کو برکت اور نور نصیب ہوتا ہے۔ کشف الظنون میں ہے ( و ہذا الکتاب آیۃ من آیات اﷲ فی الصلاۃ علی النبی علیہ الصلاۃ والسلام ) یہ کتاب حضور نبی کریم کی بارگاہ میں درود و سلام پر مشتمل ہے اور اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے مشرق و مغرب اور خاص طور پر بلاد روم میں باقاعدگی سے پڑھی جاتی ہے۔
Wednesday, January 18, 2017
Masnavi Gulzar-e-Naseem (Mirza Fida Ali Lakhnavi)
یہ مثنوی (گلزار نسیم) محمد علی شاہ کے زمانہ میں تصنیف کی گئی۔ اس میں کلام نہیں کہ مثنوی اپنے رنگ میں لاجواب ہے اور میر حسن کی مثنوی کے بعد جو شہرت جو مقبولیت اس مثنوی کو حاصل ہوئی وہ کسی کو نصیب نہیں ہوئی۔ اختصار کی بے مثل خوبی کے علاوہ صنائع و بدائع اور صنعت مراۃ النظر نے ہر بیت کو دلہن کی طرح سج دیا ہے۔
Akhbaari Lughaat (Munshi Zia-ud-Din Ahmad)
اس کتاب میں وہ تمام الفاظ حروف تہجی کی ترتیب سے جمع کر دئیے گئے ہیں جن کا استعمال اردو اخباروں میں ہوتا ہے۔ اور آسان سلیس اور صاف اردو زبان میں ان کی شرح کی گئی ہے۔ اور آخیر میں دو ضمیموں کے ذریعہ ہندوستان کے طرز حکومت اور انگلستان کے طریقہء حکومت کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ کتاب 1915 میں لکھی گئی اور ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی اجازت سے ان کے نام سے منسوب کی گئی۔
Tuesday, January 17, 2017
Thora Sa Asman (Umera Ahmad)
"تھوڑا سا آسمان" سے ایک اقتباس: آسمان وہ عروج ہے جس کو پانے کی خواہش ہمیں ہمیشہ بے تاب رکھتی ہے۔ ہم سب کبھی نہ کبھی تھوڑا سا آسمان ضرور تلاش کرتے ہیں۔ اس تلاش میں بہت سے لوگ بہت کچھ کھو دیتے ہیں اور بعض دفعہ اس تلاش میں ہم اپنے پیروں کے نیچے موجود زمین کو ٹھوکر مار دیتے ہیں۔ پھر جب آسمان تک نہیں پہنچ پاتے تو واپس زمین پر آنے کی کوشش کرتے ہیں تب بعض دفعہ زمین ہمیں پاوں رکھنے کی جگہ نہیں دیتی۔
Monday, January 16, 2017
Brave New World (Aldous Huxley)
Brave New World is a novel written in 1931 by Aldous Huxley and published in 1932. Set in London in the year AD 2540 (632 A.F.—"After Ford"—in the book), the novel anticipates developments in reproductive technology, sleep-learning, psychological manipulation, and classical conditioning that combine profoundly to change society. Huxley answered this book with a reassessment in an essay, Brave New World Revisited (1958), and with Island (1962), his final novel.
The Great Gatsby (F. Scott Fitzgerald)
The Great Gatsby is a 1925 novel written by American author F. Scott Fitzgerald that follows a cast of characters living in the fictional town of West Egg on prosperous Long Island in the summer of 1922. The story primarily concerns the young and mysterious millionaire Jay Gatsby and his quixotic passion and obsession for the beautiful former debutante Daisy Buchanan. Considered to be Fitzgerald's magnum opus, The Great Gatsby explores themes of decadence, idealism, resistance to change, social upheaval, and excess, creating a portrait of the Jazz Age or the Roaring Twenties that has been described as a cautionary tale regarding the American Dream.
Ulysses (James Joyce)
Ulysses is a modernist novel by Irish writer James Joyce. It was first serialised in parts in the American journal The Little Review from March 1918 to December 1920, and then published in its entirety by Sylvia Beach in February 1922, in Paris. It is considered to be one of the most important works of modernist literature, and has been called "a demonstration and summation of the entire movement". According to Declan Kiberd, "Before Joyce, no writer of fiction had so foregrounded the process of thinking." (Wikipedia)
Fasaana-e-Ajaib (Mirza Rajab Ali Beg)
بقول شمس الدین احمد، ”فسانہ عجائب لکھنو میں گھر گھر پڑھا جاتا تھا اور عورتیں بچوں کو کہانی کے طور پر سنایا کرتی تھیں اور بار بار پڑھنے سے اس کے جملے اور فقرے زبانوں پر چڑھ جاتے تھے۔“
سرور 1786ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے اور1867ء کو بنارس میں وفات پائی۔ سرور کو فارسی اور اردو پر پوری پوری دسترس حاصل تھی۔ شعر و شاعری کے بڑے شوقین تھے۔ فسانہ عجائب ان کی سب سے مشہور تصنیف ہے جوایک ادبی شاہکار اور قدیم طرز انشاء کا بہترین نمونہ ہے۔ اس کی عبارت مقفٰفی اور مسجع ، طرز بیان رنگین اور دلکش ہے۔ ادبی مرصع کاری ، فنی آرائش اور علمی گہرائی کو خوب جگہ دی گئی ہے۔ اگرچہ فورٹ ولیم کالج کی سلیس نگاری نے مولانا فضلی اور مرزا رسوا کے پرتکلف انداز تحریر پر کاری ضرب لگائی تھی۔ اور اس کا ثبوت باغ و بہار کی سادہ و سلیس نثر ہے۔ تاہم پھر بھی اکثر ادباء ہٹ دھرمی کا ثبوت دیتے ہوئے قدیم طرز کے دلدادہ اور اور پرستار رہے۔ رجب علی بیگ سرور بھی اسی لکیر کو پیٹ رہے تھے۔ چنانچہ باغ و بہار کے آسان اور عام فہم اسلوب پر اس زمانے میں اعتراضات کئے جانے لگے تو انہوں نے اس کے مقابلے میں ”فسانہ عجائب“ کی صورت میں مشکل اور گراں عبارت لکھ کر ”باغ و بہار“ کی ضد پیش کی۔ اور اس زمانے میں خوب داد حاصل کی۔
Bagh-o-Bahar (Mir Aman Dehelvi)
باغ وبہار میرامن دہلوی کی داستانوی کتاب ہے جو اُنھوں نے فورٹ ولیم کالج میں جان گلکرسٹ کی فرمائش پر لکھی۔یہ حقیقتا امیر خسرو کے فارسی داستان قصہ چہار درویش کا پہلا اردو ترجمہ ہے۔ بقول سید محمد ، ” میرامن نے باغ وبہار میں ایسی سحر کاری کی ہے کہ جب تک اردو زبان زندہ ہے مقبول رہے گی اور اس کی قدر و قیمت میں مرورِ ایام کے ساتھ کوئی کمی نہ ہوگی۔“ باغ و بہار فورٹ ولیم کا لج کی دین ہے جو انگریزوں کو مقامی زبانوں سے آشنا کرنے کے لئے قائم کیا گیاتھا۔ میرامن نے باغ و بہار جان گل کرائسٹ کی فرمائش پر میر حسین عطا تحسینؔ کی نو طرز مرصع سے ترجمہ کی۔ اور اس طرح یہ داستان اردو نثر میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لئے کہ اردو نثر میں پہلی مرتبہ سلیس اور آسان عبارت کا رواج ہوا جو اِسی داستان کی وجہ سے ممکن ہوا۔ آگے چل کر غالب کی نثر نے اس کمال تک پہنچا دیا۔ اس لئے تو مولوی عبدالحق کا کہنا ہے کہ اردو نثر کی ان چند کتابوں میں باغ و بہار کو شمار کیا جاتا ہے جو ہمیشہ زندہ رہنے والی ہیں اور شوق سے پڑھی جائیں گی۔ (وکی پیڈیا)
Thursday, January 12, 2017
Anandi (Ghulam Abbas)
آنندی سے اقتباس: "بلديہ کا اجلاس زوروں پر تھا، ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور خلاف معمول ايک ممبر بھي غير حاضر نہ تھا، بلديہ کے زير بحث مسئلہ يہ تھا کہ زنان بازاري کو شہر بدر کر دياجائے، کيوں کہ ان کا وجود انسانيت، شرافت اور تہذيب کے دامن پر بد نما داغ ہے۔ بلديہ کے ايک بھاري بھر کم رکن جو ملک و قوم کے سچے خير خواہ مانے جاتے تھے نہايت فصاحت سے تقرير کر رہے تھے “ اور پھر حضرات آپ يہ بھي جانتے ہیں کہ یہ بازار شہر کے وسط میں واقع ہے چنانچہ ہر شريف آدمي کو چار وناچار اس بازار سے گزرنا پڑتا ہے، علاوہ ازيں شرفا کي پاک دامن بہو بيٹياں بھی اس بازار کی تجارتي اہميت کي وجہ سے يہاں آنے اور خريد و فروخت کرنے پر مجبور ہيں ، صاحبان جب يہ شريف زادياں ان آبرو باختہ اور نيم عرياں بيواؤں کے بناؤ سنگھار کو ديکھتي ہيں تو قدرتي طور پر ان کے دل ميں بھي آرائش و دل ربائي کي نئي نئي امنگيں اور ولولے پيدا ہوتے ہيں اور اپنے غريب شوہروں سے طرح طرح کے غازوں لوِنڈروں زرق برق ساڑيوں اور قيمتي زيوروں کي فرمائشيں کرنے لگتي ہيں نتيجہ يہ ہوتا ہے کہ ان کا پر مسرت گھر ان کا راحت کدہ ہميشہ کيلئے جہنم کا نمونہ بن جاتا ہے۔"
Subscribe to:
Posts (Atom)