Friday, April 1, 2022

Kankar - Umera Ahmad


 عمیرہ احمد کا نام پاکستانی ٹیلی ویژن چینیلز میں کسی تعارف کا محتاج نہیں کیونکہ ان کے کریڈٹ پر متعدد سپرہٹ ڈرامے ہیں۔ان کے مقبول ڈراموں میں میری ذات ذرہ بے نشان، شہر ذات، زندگی گلزار ہے اور کنکر وغیرہ قابل ذکر ہیں جبکہ لاتعداد ناولز اور مختصر کہانیاں بھی ان کے پرستاروں میں بہت زیادہ مقبول ہیں۔


Meri Zaat Zarra-e-Benishan - Umera Ahmad

 


میری ذات ذرہ بےنشان ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جو ایمان، وفاداری اور معافی کے درمیان پھنسی ہوئی ہے۔ صبا نے اپنے والدین کی خواہش کے خلاف عارفین سے شادی کی ہے۔ صبا سے محبت ہونے کے باعث عارفین اپنے اندر روحانیت کا ایک عجیب اور ناقابل فہم احساس محسوس کرتا ہے۔ اپنے والدین کی ناراضگی کے باوجود وہ اپنی زندگی سے خوش اور مطمئن ہیں۔ اپنی نفرت سے مغلوب ہوکر عارفین کی ماں صبا کو بدنام کر کے اس سے چھٹکارا پانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ جبکہ صبا برداشت، رواداری اورخدا پر غیرمتزلزل یقین سے اُس کی سازشوں سے خود کو بچانے کی کوشش کرتی ہے۔ جھوٹا غرور، ظلم اور ندامت وہ سب موضوعات ہیں جو اس طاقتور کہانی کو مضبوط رنگ دیتے ہیں۔ یہ کہانی پہلی بار خواتین ڈائجسٹ میں شائع ہوا تھا۔

عمیرہ احمد نے دیباچے کے ساتھ یہ تسلیم کیا کہ اس کی کہانیوں میں واقعی کوئی خاص بات نہیں ہے لیکن بعض اوقات آپ کو عام لوگوں اور ان کی عام زندگی کے بارے میں لکھنا اور پڑھنا پڑتا ہے۔ 


Friday, August 13, 2021

Iqtidaar ki majboorian - Gen. Mirza Aslam Baig

 

زیر نظر کتاب لکھنے والے کرنل اشفاق حسین کے بقول: 

پاک فوج کے ساتھ چیف آف آرمی سٹاف جنرل مرزا اسلم بیگ کی سوانح حیات جو کئی مہینوں تک کی گئی ملاقاتوں دوران تفصیلی گفتگو سے مرتب کی گئی۔ یہ صرف ایک فرد کی زندگی کی کہانی نہیں ہے بلکہ ہماری قومی زندگی کے کئی اہم واقعات کا احاطہ بھی کرتی ہے، اور قومی و بین الاقوامی امور کے ایسے حقائق کو بے نقاب کرتی ہے جو اب تک اسرار کے پردوں میں چھپے ہوئے تھے۔


Sunday, July 4, 2021

Sab Say Pehlay Pakistan (Pervez Musharraf)


 سب سے پہلے پاکستان پرویز مشرف کی کتاب ’In the line of fire‘ کا اردو ترجمہ ہے۔ پرویز مشرف کے بقول یہ کتاب، موجودہ عہد کے پاکستان کی صورت حال پر ایک دریچہ اور اس کی بحالی میں میرے کردار کا جائزہ ہے۔ میں نے اپنی زندگی کے ابتدائی سالوں میں ایک جذباتی بلکہ شاہد تند و تیز زندگی گزاری ہے، لیکن میرا ہدف ہمیشہ اپنی اصلاح اور اپنے ملک کی بہتری رہا ہے۔ کبھی کبھی مجھے اپنی صاف گوئی اور لگی لپٹی باتیں نہ کرنے کے باعث سزائیں بھی ملی ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آپ کو اس کتاب میں ان خصوصیات کے اشارے بھی ملیں گے۔ میں نازک مرحلوں سے بھاگتا نہیں ہوں، لیکن ان میں کبھی کبھی قومی تحفظات آڑے آ جاتے ہیں۔ 

In the line of fire (Pervez Musharraf)


 
Pervez Musharraf states that this book is a window into contemporary Pakistan and my role in shaping it. I have lived a passionate life, perhaps and impetuous one in my early years, but always I have focused on self-improvement and the betterment of my country. Often I have been chastised for being too forthright and candid, and I trust you will find these qualities reflected here. I do not shy away from sensitive issues, circumscribed only by certain dictates of national security. 

Sunday, June 27, 2021

Andha Devata (John Keats - Translation by: Mirza Adeeb)

 


یہ کتاب اصل میں جان کیٹس کی نظموں کو نثر میں منتقل کر کے لکھی گئی ہے اور اسے اردو ادب کے بڑے ناموں نے مرتب کیا ہے۔ جان کیٹس کی شاعری کی بلندی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، لہذا اس کو نثر میں منتقل کرنا بھی اتنا ہی مشکل کام تھا، لیکن یہ کام اس کے مترجمان نے نہایت احسن انداز میں انجام دیا ہے۔ 

Aag Main Phool (A. Hameed)

 


اردو ادب میں اے حمید کا نام اجنبی نہیں۔ اے حمید اپنے ہمہ جہت تخلیقی خیالات اور اندازِ بیان کی وجہ سے بے حد مشہور ہیں۔ زیر نظر کتاب بھی انہی میں سے ایک ہے۔ 

Aadmi (Ernest Taylor) - Urdu Translation by: Naseem Allahabadi

 

مترجم کے بقول: یہ ڈراما بحیثیت مجموعی اس بصیرت کی روداد ہے۔ یہ ڈراما میرے اندر سے حقیقتاً پھٹ کر نکل پڑا اور ڈھائی دن کے اندر میں نے اسے لکھ ڈالا۔ وہ دو راتیں، جو قید ہو جانے کی وجہ سے مجھے ’’بستر‘‘ پر بتانی پڑیں، ایک اندھیرے کال کوٹھڑی میں، اتھاہ روحانی کرب کی وادیاں تھیں۔

Wednesday, March 17, 2021

Amar Bail (Umera Ahmad)

 


عمیرہ احمد کے بقول: ’’اس ناول کو پڑھتے وقت یہ بات ذہن میں رکھیں کہ یہ کوئی سیاسی ناول نہیں ہے، نہ ہی یہ کوئی تاریخی  اور معاشرتی ناول ہے۔ یہ خواہش اور چاہ کا ناول ہے یا پھر سود و زیاں کا۔ بعض دفعہ ساری زندگی گزارنے کے بعد بھی ہم یہ نہیں جان پاتے کہ ہمیں آخر زندگی میں کس چیز کی ضرورت تھی۔۔۔ کسی چیز کی ضرورت تھی بھی یا نہیں، اور بعض دفعہ زندگی کے آخری لمحات میں ہمیں احساس ہوتا ہے کہ جس چیز کو ہم نے زندگی کا حاصل بنا رکھا تھا، اس چیز کے بغیر زندگی زیادہ اچھی گزر سکتی تھی۔ امربیل کے کردار بھی آگہی کے اسی عذاب سے گزرتے نظر آئیں گے۔‘‘


Monday, February 1, 2021

Sarkari Darbari (By: Malik Safdar Hayat)


ملک صفدر حیات پاکستان پولیس کے ایک ریٹائرڈ ڈی ایس پی ہیں۔ انہوں نے جرم و سزا کے حوالے سے اپنے کیرئیر میں بہت سے کیسز پر مبنی کئی کتب تحریر کی ہیں۔ آسان زبان اور تحریر کی روانی کی وجہ سے ان کی کتابیں بہت مشہور ہیں۔ زیر نظر کتاب بھی انہی میں سے ایک ہے جس میں کچھ واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ ان کی دیگر کتابوں میں "ستم نصیب" اور "غیرت مند" شامل ہیں۔ 

Shikast-e-Aarzo (By: Prof. Dr. Syed Sajjad Hussain)


شکست آرزو کے مصنف ڈاکٹر سید سجاد حسین کہتے ہیں کہ یہ یادداشتیں میں نے 1973 میں ڈھاکا جیل میں قلم بند کی تھیں، جہاں مجھے پاکستان کے خلاف چلائی جانے والی تحریک میں  شیخ مجیب الرحمان کا ساتھ نہ دینے کے جرم میں قید رکھا گیا تھا۔ ڈاکٹر سجاد کے بقول وہ نہ تو کوئی سیاست دان تھے، اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کے کارکن۔ وہ کہتے ہیں کہ میں 1971 میں یحیی کی حکومت کی درخواست پر برطانیہ اور امریکہ گیا تھا تاکہ یہ واضح کر سکوں کہ مشرقی پاکستان میں جاری جدوجہد دراصل کن دو قوتوں کے درمیان تھی۔ 

Wednesday, July 22, 2020

Maut Kay Saudagar - Part 12



’’موت کے سوداگر‘‘ ایک ایسے نوجوان کی خود نوشت ہے جو اپنوں کے ہاتھوں تباہ ہو کر منزل کا نشان کھو بیٹھا تھا۔ یہ ان نوجوانوں کی دستان عبرت ہے جن کی پرورش رشوت کے مال سے ہونی تھی۔ یہ ان زر پرستوں کا احوال ہے جنہیں سونے چاندی کی خیرہ کن چمک نے بنیائی سے محروم کر دیا۔ یہ مشہور زمانہ خود نوشت اقلیم علیم نے تحریر کی ہے۔

Maut Kay Saudagar - Part 11



’’موت کے سوداگر‘‘ ایک ایسے نوجوان کی خود نوشت ہے جو اپنوں کے ہاتھوں تباہ ہو کر منزل کا نشان کھو بیٹھا تھا۔ یہ ان نوجوانوں کی دستان عبرت ہے جن کی پرورش رشوت کے مال سے ہونی تھی۔ یہ ان زر پرستوں کا احوال ہے جنہیں سونے چاندی کی خیرہ کن چمک نے بنیائی سے محروم کر دیا۔ یہ مشہور زمانہ خود نوشت اقلیم علیم نے تحریر کی ہے۔

Maut Kay Saudagar - Part 10



’’موت کے سوداگر‘‘ ایک ایسے نوجوان کی خود نوشت ہے جو اپنوں کے ہاتھوں تباہ ہو کر منزل کا نشان کھو بیٹھا تھا۔ یہ ان نوجوانوں کی دستان عبرت ہے جن کی پرورش رشوت کے مال سے ہونی تھی۔ یہ ان زر پرستوں کا احوال ہے جنہیں سونے چاندی کی خیرہ کن چمک نے بنیائی سے محروم کر دیا۔ یہ مشہور زمانہ خود نوشت اقلیم علیم نے تحریر کی ہے۔

Tuesday, July 21, 2020

Maut Kay Saudagar - Part 09



’’موت کے سوداگر‘‘ ایک ایسے نوجوان کی خود نوشت ہے جو اپنوں کے ہاتھوں تباہ ہو کر منزل کا نشان کھو بیٹھا تھا۔ یہ ان نوجوانوں کی دستان عبرت ہے جن کی پرورش رشوت کے مال سے ہونی تھی۔ یہ ان زر پرستوں کا احوال ہے جنہیں سونے چاندی کی خیرہ کن چمک نے بنیائی سے محروم کر دیا۔ یہ مشہور زمانہ خود نوشت اقلیم علیم نے تحریر کی ہے۔

Maut Kay Saudagar - Part 08



’’موت کے سوداگر‘‘ ایک ایسے نوجوان کی خود نوشت ہے جو اپنوں کے ہاتھوں تباہ ہو کر منزل کا نشان کھو بیٹھا تھا۔ یہ ان نوجوانوں کی دستان عبرت ہے جن کی پرورش رشوت کے مال سے ہونی تھی۔ یہ ان زر پرستوں کا احوال ہے جنہیں سونے چاندی کی خیرہ کن چمک نے بنیائی سے محروم کر دیا۔ یہ مشہور زمانہ خود نوشت اقلیم علیم نے تحریر کی ہے۔

Maut Kay Saudagar - Part 07



’’موت کے سوداگر‘‘ ایک ایسے نوجوان کی خود نوشت ہے جو اپنوں کے ہاتھوں تباہ ہو کر منزل کا نشان کھو بیٹھا تھا۔ یہ ان نوجوانوں کی دستان عبرت ہے جن کی پرورش رشوت کے مال سے ہونی تھی۔ یہ ان زر پرستوں کا احوال ہے جنہیں سونے چاندی کی خیرہ کن چمک نے بنیائی سے محروم کر دیا۔ یہ مشہور زمانہ خود نوشت اقلیم علیم نے تحریر کی ہے۔

Thursday, July 16, 2020

Maut Kay Saudagar - Part 06

موت کے سوداگر


’’موت کے سوداگر‘‘ ایک ایسے نوجوان کی خود نوشت ہے جو اپنوں کے ہاتھوں تباہ ہو کر منزل کا نشان کھو بیٹھا تھا۔ یہ ان نوجوانوں کی دستان عبرت ہے جن کی پرورش رشوت کے مال سے ہونی تھی۔ یہ ان زر پرستوں کا احوال ہے جنہیں سونے چاندی کی خیرہ کن چمک نے بنیائی سے محروم کر دیا۔ یہ مشہور زمانہ خود نوشت اقلیم علیم نے تحریر کی ہے۔

Maut Kay Saudagar - Part 05

موت کے سوداگر


’’موت کے سوداگر‘‘ ایک ایسے نوجوان کی خود نوشت ہے جو اپنوں کے ہاتھوں تباہ ہو کر منزل کا نشان کھو بیٹھا تھا۔ یہ ان نوجوانوں کی دستان عبرت ہے جن کی پرورش رشوت کے مال سے ہونی تھی۔ یہ ان زر پرستوں کا احوال ہے جنہیں سونے چاندی کی خیرہ کن چمک نے بنیائی سے محروم کر دیا۔ یہ مشہور زمانہ خود نوشت اقلیم علیم نے تحریر کی ہے۔

Maut Kay Saudagar - Part 04

موت کے سوداگر

’’موت کے سوداگر‘‘ ایک ایسے نوجوان کی خود نوشت ہے جو اپنوں کے ہاتھوں تباہ ہو کر منزل کا نشان کھو بیٹھا تھا۔ یہ ان نوجوانوں کی دستان عبرت ہے جن کی پرورش رشوت کے مال سے ہونی تھی۔ یہ ان زر پرستوں کا احوال ہے جنہیں سونے چاندی کی خیرہ کن چمک نے بنیائی سے محروم کر دیا۔ یہ مشہور زمانہ خود نوشت اقلیم علیم نے تحریر کی ہے۔

Wednesday, July 15, 2020

Maut Kay Saudagar - Part 03

موت کے سوداگر


’’موت کے سوداگر‘‘ ایک ایسے نوجوان کی خود نوشت ہے جو اپنوں کے ہاتھوں تباہ ہو کر منزل کا نشان کھو بیٹھا تھا۔ یہ ان نوجوانوں کی دستان عبرت ہے جن کی پرورش رشوت کے مال سے ہونی تھی۔ یہ ان زر پرستوں کا احوال ہے جنہیں سونے چاندی کی خیرہ کن چمک نے بنیائی سے محروم کر دیا۔ یہ مشہور زمانہ خود نوشت اقلیم علیم نے تحریر کی ہے۔

Maut Kay Saudagar - Part 02


موت کے سوداگر


’’موت کے سوداگر‘‘ ایک ایسے نوجوان کی خود نوشت ہے جو اپنوں کے ہاتھوں تباہ ہو کر منزل کا نشان کھو بیٹھا تھا۔ یہ ان نوجوانوں کی دستان عبرت ہے جن کی پرورش رشوت کے مال سے ہونی تھی۔ یہ ان زر پرستوں کا احوال ہے جنہیں سونے چاندی کی خیرہ کن چمک نے بنیائی سے محروم کر دیا۔ یہ مشہور زمانہ خود نوشت اقلیم علیم نے تحریر کی ہے۔

Maut Kay Saudagar - Part 01


موت کے سوداگر

’’موت کے سوداگر‘‘ ایک ایسے نوجوان کی خود نوشت ہے جو اپنوں کے ہاتھوں تباہ ہو کر منزل کا نشان کھو بیٹھا تھا۔ یہ ان نوجوانوں کی دستان عبرت ہے جن کی پرورش رشوت کے مال سے ہونی تھی۔ یہ ان زر پرستوں کا احوال ہے جنہیں سونے چاندی کی خیرہ کن چمک نے بنیائی سے محروم کر دیا۔ یہ مشہور زمانہ خود نوشت اقلیم علیم نے تحریر کی ہے۔

Friday, December 13, 2019

Zaviyah - 2 (Ashfaq Ahmad)


جب اردو ادب کی بات کی جاتی ہے تو اشفاق احمد کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ اردو ادب کے سب سے بڑے لکھاریوں میں شمار ہوتا ہے۔ آپ کا تخلیق کردہ کردار تلقین شاہ ایک ایسا انہونا کردار ہے جو معاشرے کی مختلف برائیوں پر اپنا گہرا تبصرہ و تجزیہ کرتا ہے اور اسے ختم کرنے کے حوالے سے علمی باتیں کرتا ہے۔

Tuesday, December 10, 2019

Barq Paash - Anwar Siddiqui


جاسوسی اور خوفناک کہانیاں لکھنے میں انوار صدیقی ماہر و یکتا ہیں اور اپنا نام رکھتے ہیں۔ زیر نظر کتاب بھی انتہائی دلچسپ اور سسپنس سے بھرپور ہے۔

Guriya Ghar - Mumtaz Mufti


یہ کتاب ممتاز مفتی نے تحریر کی ہے جو ادب میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔ اس مجموعے میں چار افسانے شامل ہیں۔ ان سب میں یہ قدر مشترک ہے کہ دولت، اقتدار، اختیار، رسوم اور تہذیب کا غازہ کھرچ کر انسانوں کی بنیادی فطرت کو اپنے اصلی روپے میں دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔

Thursday, November 14, 2019

Barae Farokht (Muhammad Hamid Siraj)


محمد حامد سراج تخلیق کی دنیا کا نیا نام نہیں ہے۔ انہوں نے کئی شہرہ آفاق کتابیں تحریر کیں۔ سادہ زبان اور سلیس انداز بیان ان کی خوبی ہے۔ ان کی دیگر کتابوں میں آشوبِ نگاہ، بخیہ گری، چوبدار، وقت کی فصیل، ہمارے بابا جی حضرت مولانا خواجہ خان محمد، مجموعہ محمد حامد سراج، عالمی سب رنگ افسانے اور نقش گر شامل ہیں۔ زیر نظر کتاب کئی چھوٹی چھوٹی کہانیوں پر مشتمل ایک مجموعہ ہے۔ 

Thursday, November 7, 2019

Pari Zaad (Hashim Nadeem)


پری زاد ہاشم ندیم کا لکھا ایک ناول ہے۔ ہاشم ندیم اس سے قبل عبد اللہ اور بچپن کا دسمبر جیسے شہرہ آفاق ناول لکھ چکے ہیں۔ یہ ناول بھی ایک اچھوتے اور انوکھے موضوع پر مبنی ہے۔ 

Friday, August 2, 2019

Sitam Naseeb (Malik Safdar Hayat)


ستم نصیب ملک صفدر حیات کی لکھی گئی چار کہانیوں پر مشتمل کتاب ہے۔ ملک صفدر حیات پولیس کے ریٹائرڈ ڈی ایس پی ہیں۔ ان کی لکھی گئی کہانیاں معاشرے میں رونما ہونے والے مختلف مجرمانہ واقعات کے گرد لکھی جاتی ہیں اور ان کا انداز پڑھنے والے کو آخری وقت تک اپنے سحر سے نکلنے نہیں دیتا۔ ملک صفدر حیات نے بے شمار کتابیں لکھی ہیں۔ ان کی دیگر کتب میں "غیرت مند" اور "سرکاری درباری" شامل ہیں۔ 

Friday, July 26, 2019

Ali Pur Ka Aili (Mumtaz Mufti)


علی پور کا ایلی اردو زبان کے مشہور ناولوں میں ایک ہے جو خودنوشت سوانح عمری کے انداز میں تحریر کیا گیا ہے، جس کے مصنف ممتاز مفتی ہیں۔ یہ ایک ضخیم ناول ہے جس کا مرکزی کردار الیاس عرف ایلی ہے جو خود مصنف کی ذات ہے۔ اگرچہ ابتدا میں مصنف نے یہ بات ظاہر نہیں کی (1995ء میں اس بات کا انکشاف خود مصنف نے کیا)۔ کہانی اور کردار بظاہر افسانوی ہیں لیکن مفتی کی زندگی کے کئی حقیقی پہلو اس میں واضح ہیں۔ جیسے آصفی خاندان حقیقتاً بھی مفتی کا ہی خاندان ہے۔ اسی طرح مقامات کے اصل نام لکھے گئے ہیں۔ ابن انشاء نے اسے اردو کا گرو گرنتھ کہا ہے۔ اسے آدم جی ادبی انعام کے حوالے سے اسے کافی شہرت حاصل ہوئی۔ بقول ابن انشا یہ کتاب اس لیے مشہور ہوئی کہ اسے آدم جی اانعام نہ مل سکا جبکہ بانو قدسیہ، جمیل الدین عالی اور قدرت اللہ شہاب وغیرہ نے اس کی تعریف کی ہے۔ ابتدا میں جب یہ شائع ہوا تو اس کی 250 جلدیں تھیں لیکن بے حد مقبول ہوئیں۔